فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
چیزوں سے زیادہ پسند ہے۔(شعب الایمان للبیہقی،۔۔۔۔۔حدیث:۵۵۵) اِن ہی وُجوہ سے صبح کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد اَورَاد کا معمول ہے، اورحضراتِ صوفیا کے یہاں تو اِن دونوں وقتوں کاخاص اہتمام ہے، کہ صبح کی نماز کے بعد عموماً اَشغال میں اِہتِمام فرماتے ہیں اور عصر کے بعد اَورَاد کا اِہتمام فرماتے ہیں؛ بِالخصوص فجر کے بعد فُقَہا بھی اِہتمام فرماتے ہیں۔ ’’مُدَوَّنہ‘‘ میں امام مالکؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ: فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب تک باتیں کرنا مکروہ ہیں، اور حَنفِیَّہ میں سے صاحبِ دُرِّمختارؒنے بھی اِس وقت باتیں کرنا مکروہ لکھا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص صبح کی نماز کے بعد اُسی ہَیئَت سے بیٹھے ہوئے بولنے سے قبل یہ دعا دس مرتبہ پڑھے: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیكَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ، وَہُوَعَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ: اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں، وہ اپنی ذات اورصِفات میں اَکیلا ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں، سارا مُلک -دنیا اور آخرت کا- اُسی کا ہے، اور جتنی خوبیاں ہیں وہ اُسی پاک ذات کے لیے ہیں، وہی زندہ کرتا ہے، وہی مارتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو اُس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں، دس بُرائیاں مُعاف فرمائی جائیں، اور جنت میں دس درجے بلند کیے جائیں، اور تمام دن شیطان سے اور مَکروہات سے محفوظ رہے۔(ترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی فضل التسبیح والتکبیروالتہلیل،۲؍۱۸۵حدیث:۳۴۷۴) ایک حدیث میں آیا ہے: جو صبح اور عصر کے بعد أَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ (مَیں اُسی اللہ سے جو زندہ ہے ہمیشہ رہنے والا ہے، اُس کے سِوا کوئی معبود نہیں، اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتا ہوں، اور اُسی کی طرف رُجوع کرتا ہوں، توبہ کرتا ہوں)تین مرتبہ پڑھے، اُس کے گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(عمل الیوم واللیلۃ،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۲۴) (۲۰) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: اَلدُّنیَا مَلعُوْنَۃٌ وَمَلعُوْنٌ مَافِیهَا؛ إِلَّا ذِکرُاللہِ، وَمَا وَالَاہُ، وَعَالِماً، وَمُتَعَلِّماً. (رواہ الترمذي وابن ماجہ والبیهقي؛ وقال الترمذي: حدیث حسن، کذا في الترغیب. وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ ابن ماجہ، ورقم لہ بالحسن. وذکرہ في مجمع الزوائد بروایۃ الطبراني في الأوسط عن ابن مسعود، وکذا السیوطي في الجامع الصغیر، وذکرہ بروایۃ البزارعن ابن مسعود بلفظ: ’’إِلَّا أَمراً بِالمَعرُوفِ أَو نَهیاً عَنِ المُنکَرِ أوْ ذِکرُ اللہِ‘‘، رقم لہ بالصحۃ) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: دنیا مَلعُون ہے، اور جوکچھ دنیا میں ہے سب ملعون (اللہ کی رحمت سے دور ہے)؛مگر اللہ کا ذکر اور وہ چیز جو اُس کے قریب ہو، اور عالم اور طالبِ علم۔ قَبِیل: قِسم۔ قُربت: نزدیکی۔ تَر: گیلا۔ خُشک: سوکھا۔ اِلہام: دل میں ڈالنا۔ مَبسُوط: مُفصَّل۔ دَفع: دُور۔ اِنبِساط: خوشی۔ سَعادت: نیک بختی۔رَسائی: پہنچ۔مُنتَہائے مَقصَد:آخری مقصد۔ رَفتہ رَفتہ: آہستہ آہستہ۔ نوبت: حالت۔ماویٰ: ٹھکانہ۔ مَلْجا: پناہ گاہ۔ اِضافہ: زیادتی۔ فائدہ: اُس کے قریب ہونے سے مراد ذکر کے قریب ہونا بھی ہوسکتا ہے،