فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اتِّفاق سے وہ ایک جگہ اِس حالت میں پڑے ہوئے مِلے کہ دَم توڑ رہے تھے اور جاںکَنی شروع تھی، مَیںنے پوچھا: پانی کاگھونٹ دُوں؟ اُنھوںنے اشارہ سے ہاںکی، اِتنے میںدوسرے صاحب نے -جوقریب ہی پڑے تھے، اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے- آہ کی، میرے چچازادبھائی نے آواز سنی تومجھے اُن کے پاس جانے کااشارہ کیا، مَیںاُن کے پاس پانی لے کرگیا، وہ ہِشام بن اَبی العاص تھے، اُن کے پاس پہنچاہی تھاکہ اُن کے قریب ایک تیسرے صاحب اِسی حال میںپڑے دَم توڑ رہے تھے، اُنھوںنے آہ کی، ہشامص نے مجھے اُن کے پاس جانے کواشارہ کردیا، مَیں اُن کے پاس پانی لے کرپہنچا تو اُن کادَم نکل چکاتھا، ہشامص کے پاس واپس آیا تو وہ بھی جاںبہ حق ہوچکے تھے، اُن کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اِتنے میںوہ بھی ختم ہوچکے تھے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ. (دِرایہ) فائدہ: اِس نوع کے متعدِّد واقعات کُتُبِ حدیث میںذکرکیے گئے۔ کیااِنتِہا ہے اِس ایثار کی! کہ اپنابھائی آخری دَم توڑ رہاہو، اورپیاسا ہو، ایسی حالت میں کسی دوسرے کی طرف توجُّہ کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے، چہ جائیکہ اُس کوپیاسا چھوڑ کر دوسرے کوپانی پلانے چَلا جائے۔ اور اِن مرنے والوں کی رُوحوں کواللہ جَلَّ شَانُہٗ اپنے لُطف وفضل سے نوازیں، کہ مرنے کے وقت بھی -جب ہوش وحَواس سب ہی جواب دے دیتے ہیں- یہ لوگ ہمدردی میں جان دیتے ہیں۔ (۶)حضرت حمزہ ص کاکفن تَحمُّل: برداشت۔ قَوِی: طاقت وَر۔ پَرے: پیچھے۔ تجویز: مُتعَین۔قُرعہ:بہت سے لوگوں میں سے ایک کانام نکالنے کاطریقہ۔ قَد: جسم کی لمبائی۔ حضورِاقدس ﷺ کے چچاحضرت حمزہ صغزوئہ اُحُد میں شہید ہوگئے، اوربے دَرد کافروں نے آپ صکے کان، ناک وغیرہ اعضاکاٹ دیے، اورسینہ چیر کر دِل نکالا، اورطرح طرح کے ظلم کیے، لڑائی کے ختم پرحضورِاکرم ﷺاور دوسرے صحابہ شہیدوں کی نعشیں تلاش فرماکر اُن کی تَجہِیزو تکفِین کا انتظام فرما رہے تھے، کہ حضرت حمزہ صکو اِس حالت میںدیکھا، نہایت صدمہ ہوا، اورایک چادر سے اُن کوڈھانک دیا، اِتنے میںحضرت حمزہ ص کی حقیقی بہن:حضرت صفیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا تشریف لائیں، کہ اپنے بھائی کی حالت کو دیکھیں، حضورﷺنے اِس خَیال سے کہ آخرعورت ہیں، ایسے ظلموں کے دیکھنے کا تَحمُّل مشکل ہوگا، اُن کے صاحبزادے: حضرت زبیر صسے ارشاد فرمایاکہ: اپنی والدہ کودیکھنے سے منع کرو، اُنھوں نے والدہ سے عرض کیاکہ: حضورﷺنے دیکھنے کومنع فرما دیا، اُنھوں نے کہاکہ: مَیں نے یہ سنا ہے کہ میرے بھائی کے ناک، کان، وغیرہ کاٹ دیے گئے، اللہ کے راستے میںیہ کونسی بڑی بات ہے؟ ہم اِس پر راضی ہیں، مَیں اللہ سے ثواب کی امید رکھتی ہوں، اور إِنْ