فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اللہُ کا اِہتمام ہو اُس کو دنیا بھی آخرت پر مُستعِد کرے گی، اور مصیبت سے اُس کی حفاظت کرے گی۔ (۴۰)عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: اَلإِیمَانُ بِضعٌ وَسَبعُونَ شُعبَۃً، فَأَفضَلُهَا قَولُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَأَدنَاهَا إِمَاطَۃُ الأَذیٰ عَنِ الطَّرِیقِ، وَالحَیَاءُ شَعبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ. (رواہ الستۃ وغیرهم بألفاظ مختلفۃ واختلاف یسیر في العدد وغیرہ) وهذا اٰخر ماأردت إیرادہ في هذا الفصل رعایۃ لعدد الأربعین، واللہ الموفق لما یحب ویرضیٰ. ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: ایمان کی سَتَّر سے زیادہ شاخیں ہیں، (بعض روایات میں سَتتر (۷۷) آئی ہیں)،اُن میں سب سے افضل لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کاپڑھنا ہے، اور سب سے کم درجہ راستے سے کسی تکلیف دَہ چیز (اینٹ، لکڑی، کانٹے وغیرہ) کا ہٹادینا ہے، اور حَیا بھی (ایک خصوصی)شعبہ ہے ایمان کا۔ تکلیف دَہ: تکلیف دینے والی۔ رُسوائی: ذِلَّت۔ میزان: کُل تعداد۔ مُکرَّرات: جو دوبارہ آئی ہو۔ نُقص: کمی۔ اُصول وفُروع:کُلِّیات وجزئیات۔ مُحقَّق: ثابت۔ مُضِر:نقصان دینے والا۔ دَفع: دُور۔ مِثل: برابر۔ ماسِوا: عِلاوہ۔ رِیا: دِکھلاوا۔ خودبینی: تکبُّر۔ خودسَتائی:اپنی تعریف کرنا۔ خَلِش: کھٹک۔ فَریب: دھوکہ۔ مَکر: چال بازی۔جاہ: مرتبہ۔ فائدہ:حیا کو خُصوصی اِہتمام کی وجہ سے ذکر فرمایا،کہ یہ بہت سے گناہوں: زنا، چوری، فحش گوئی، ننگا ہونا، گالی گلوچ وغیرہ سے بچنے کا سبب ہے، اِسی طرح رُسوائی کے خَیال سے بہت سے نیک کام کرنا ضروری ہوجاتے ہیں؛ بلکہ دنیا اور آخرت کی شرم سارے ہی نیک کاموں پر اُبھارتی ہے، نماز، زکوۃ، حج وغیرہ تو ظاہر ہیں، اِسی طرح سے اَور بھی تمام اَحکام بجا لانے کا سبب ہے۔ اِسی وجہ سے مَثل مشہور ہے: ’’تُو بے حَیا باش وہَرچہ خَواہی کُن‘‘:تُو بے غیرت ہوجا، پھر جو چاہے کر۔ اِس معنیٰ میں صحیح حدیث بھی وارد ہے: إِذَا لَم تَسْتَحْیِيْ فَاصنَعْ مَا شِئْتَ: (بخاری،کتاب الانبیاء، باب، ۱؍۴۹۵حدیث:۳۳۶۴)جب تُو حَیادار نہ رہے تو پھر جو چاہے کر، کہ ساری فکر غیرت اور شرم ہی کی ہے، اگر حیا ہے تو یہ خَیال بھی ضروری ہے کہ: نماز نہ پڑھوںگا تو آخرت میں کیا منھ دکھلاؤںگا؟ اور شرم نہیں ہے توپھر یہ خَیال ہوتا ہے کہ: کوئی کہہ کر کیا کرلے گا۔ تنبیہ: اِس حدیث شریف میں ایمان کی سَتَّر سے زیادہ شاخیں ارشاد فرمائی ہیں، اِس بارے میں روایات مختلف وارد ہوئی ہیں، اور مُتعدِّد روایات میں سَتَتر(۷۷) کا عدد آیا ہے؛ اِسی لیے ترجَمے میں اِس طرف اِشارہ بھی کردیا تھا۔ اِن سَتتر کی تفصیل میں عُلَما نے بہت سی مستقل تصانیف فرمائی ہیں۔ امام ابو حاتِم بنِ حِبَّان فرماتے ہیں کہ: مَیں اِس حدیث کا مطلب ایک مدت تک سوچتا رہا، جب عبادتوں کو گنتا وہ ستتر سے بہت زیادہ ہوجاتیں، احادیث کوتلاش کرتا، اور حدیث شریف میں جن چیزوں کو خاص طور سے ایمان کی شاخوں کے ذیل میں ذکر کیا ہے اُن کو شمار کرتا، تو وہ اِس عدد سے کم ہوجاتِیں، مَیں قرآن پاک کی طرف مُتوجَّہ ہوا، اور قرآن شریف میں جن چیزوں کو ایمان کے