فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اِنہِماک زیادہ ہوتارہتا ہے۔ نیز یہ معلوم ہوجانا بھی ضروری ہے کہ، حدیثِ بالا اور اِس جیسی احادیث میں گناہوں سے مراد عُلَما کے نزدیک صَغِیرہ گناہ ہوتے ہیں؛ اِس لیے کہ قرآنِ پاک میں جہاں کَبیرہ گناہوں کا ذکر آتا ہے اُن کو﴿إلَّا مَنْ تَابَ﴾ کے ساتھ ذکر کیا ہے، اِسی بِنا پر عُلَما کا اِجماع ہے کہ، کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے مُعاف نہیں ہوتا۔ پس جہاں احادیث میں گناہوں کے مُعاف ہونے کاذکر آتا ہے عُلما اُس کو صَغائِر کے ساتھ مُقیَّد فرمایا کرتے ہیں۔ میرے والد صاحب -نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضجَعَہٗ- کا ارشاد ہے کہ: احادیث میں صَغائِر کی قید دو وجہ سے مذکور نہیں ہوتی: اوَّل تو یہ کہ مسلمان کی شان یہ ہے ہی نہیں کہ اُس کے ذمَّے کَبیرہ گناہ ہو؛ کیوںکہ جب کبیرہ گناہ اُس سے صَادِر ہوجاتا ہے تو مسلمان کی اَصل شان یہ ہے کہ اُس وقت تک چین ہی نہ آوے جب تک کہ اُس گناہ سے توبہ نہ کرلے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ: جب اِس قِسم کے موقع ہوتے ہیں مثلاً لیلۃُ القَدر ہی میں جب کوئی شخص بہ اُمیدِ ثواب عبادت کرتا ہے تو اپنی بداعمالیوں پر نَدامَت اُس کے لیے گویا لازم ہے، اور ہوہی جاتی ہے؛ اِس لیے توبہ کاتحقُّق خود بہ خود ہوجاتا ہے، کہ توبہ کی حقیقت گذشتہ پر نَدامَت اور آئندہ کونہ کرنے کا عَزم ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص کَبائِر کامُرتکِب بھی ہو تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ، لَیلَۃُ القَدر ہو یا کوئی اَور اِجابت کا موقع ہو، اپنی بداعمالیوں سے سچے دل سے پُختگی کے ساتھ دِل وزبان سے توبہ بھی کرلے؛ تاکہ اللہ کی رحمتِ کامِلہ مُتوجَّہ ہو، اور صغیرہ کبیرہ سب طرح کے گناہ مُعاف ہوجاویں، اور یاد آجاوے تو اِس سِیاہ کار کوبھی اپنی مُخلِصانہ دُعاؤں میں یاد فرمالیں۔ (۲) عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلَ رَمَضَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: إنَّ هٰذَا الشَّهرَ قَد حَضَرَکُم، وَفِیْہِ لَیلَۃٌ خَیرٌ مِنْ أَلفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَهَا فَقَد حُرِمَ الخَیرَ کُلَّہٗ، وَلَایُحرَمُ خَیرَهَا إلَّامَحرُومٌ. (رواہ ابن ماجہ، وإسنادہ حسن إن شاء اللہ؛ کذا في الترغیب، وفي المشکوۃ عنہ: ’’إلَّا کُلُّ مَحرُومٍ‘‘) ترجَمہ:حضرت انس صکہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رمَضانُ المبارک کامہینہ آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ: تمھارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری ہی خَیر سے محروم رہ گیا، اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا؛ مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔ تَا ٔمُّل: شک۔ دِقَّت: حَرج،تکلیف۔ چَسکا: عادت، شوق۔ جَفا:بے وفائی۔وَرَم: سُوجن۔ حِرص: تمنا۔ گوہر: موتی۔اِعتماد: بھروسہ۔ تَرَس: رحم۔ سَلَف: اَگلے۔ دَور: زمانہ۔ اِنہِماک: مشغولی۔ مانع: رُکاوَٹ۔ سَدِّ راہ: حائل۔ زَائل: ختم۔ روز مَرَّہ: روزانہ۔ شاہدِ عَدل: سچے گواہ۔ فائدہ: حقیقتاً اُس کی محرومی میں کیا تَا ٔمُّل ہے جو اِس قدر بڑی نعمت کو ہاتھ سے کھو دے۔ ریلوے مُلازِم چند کوڑیوں کی خاطر رات رات بھر جاگتے ہیں، اگر اَسّی برس کی عبادت کی خاطر کوئی ایک مہینے تک رات میں جاگ لے تو کیا دِقَّت ہے؟ اصل یہ ہے کہ دِل میں تڑپ ہی نہیں، اگر ذرا سا چَسکا پڑجائے