فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
وَساوِس بھی گھیرتے ہیں، شیطان کی رَخنہ اَندازی بھی مُستَقل ایک مصیبت ہے، دُنیاوی ضروریات بھی اپنی طرف کھینچتی ہے، اِس صورت میں مطلب ارشادِ نبوی ﷺ کا یہ ہے کہ: کلمۂ طیبہ کی کثرت اِن سب چیزوں کاعلاج ہے، کہ وہ اِخلاص پیدا کرنے والا ہے، دِلوں کا صاف کرنے والا ہے، شیطان کی ہلاکت کا سبب ہے، جیسا کہ اِن سب روایات میں اُس کے اثرات بہت سے ذکرکیے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا کلمہ اپنے پڑھنے والے سے ننانوے قِسم کی بَلائیں دور کرتا ہے، جن میں سب سے کم غم ہے جو ہر وقت آدمی پر سوار رہتا ہے۔(کنز العمال ۔۔۔۔۔) (۲۷) عَن عُثمَانَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّي لَأَعلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ حَقًّا مِن قَلبِہٖ إِلَّا حُرِّمَ عَلَی النَّارِ، فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ بنُ الخَطَّابِ: أَنَا أُحَدِّثُكَ مَا هِيَ؟ هِيَ کَلِمَۃُ الإخلَاصِ الَّتِي أَعَزَّ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ بِهَا مُحَمَّداًﷺ وَأَصحَابَہٗ، وَهِيَ کَلِمَۃُ التَّقویٰ الَّتِي أَلَاصَ عَلَیهَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ عَمَّہٗ أَبَاطَالِبٍ عِندَ المَوتِ: شَهَادَۃُ أَن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ. (رواہ أحمد، وأخرجہ الحاکم بهذا اللفظ، وقال: صحیح علیٰ شرطهما، وأقرہ علیہ الذهبي، وأخرجہ الحاکم بروایۃ عثمان عن عمر مرفوعا: ’’إِنِّي لَأَعلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ حَقًّا مِن قَلبِہٖ، فَیَمُوتُ عَلیٰ ذٰلِكَ إِلَّا حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘. وقال: هذا صحیح علیٰ شرطهما، ثم ذکر لہ شاهدین من حدیثهما) ترجَمہ:حضرت عثمان ص فرماتے ہیں کہ: مَیں نے حضورﷺ سے سنا تھا کہ: مَیں ایک کلمہ ایسا جانتا ہوں کہ جو شخص اُس کو حق سمجھ کر اخلاص کے ساتھ دل سے(یقین کرتے ہوئے) اُس کو پڑھے تو جہنَّم کی آگ اُس پر حرام ہے، حضرت عمرصنے فرمایا کہ: مَیں بتاؤں وہ کلمہ کیا ہے؟ وہ وہی کلمہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو اور اُس کے صحابہث کو عزت دی، وہ وہی تقویٰ کا کلمہ ہے جس کی حضورِ اقدس ﷺنے اپنے چچا ابوطالب سے اُن کے انتقال کے وقت خواہش کی تھی، وہ شہادت ہے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی۔ رَنجیدہ: غمگین۔ بے گانہ: جُدا۔ فائدہ:حضورﷺکے چچا ابوطالب کا قِصَّہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں مشہور معروف ہے کہ: جب اُن کے اِنتِقال کا وقت قریب ہوا تو چوںکہ اُن کے اِحسانات نبیٔ اکرم ﷺ اور مسلمانوں پر کثرت سے تھے؛ اِس لیے نبیٔ اکرم ﷺاُن کے پاس تشریف لے گئے، اور ارشاد فرمایا کہ: اے میرے چچا! لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہہ لیجیے؛ تاکہ مجھے قِیامت کے دن آپ کی سفارش کا موقع مل سکے، اور مَیں اللہ کے یہاں آپ کے اِسلام کی گواہی دے سکوں، اُنھوں نے فرمایا کہ: لوگ مجھے یہ طعنہ دیںگے کہ موت کے ڈر سے بھتیجے کا دین قبول کرلیا، اگر یہ خَیال نہ ہوتا تو مَیں اِس وقت اِس کلمے کے کہنے سے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا، اِس پرحضورﷺرَنجیدہ واپس تشریف لائے۔ اِسی قِصَّے میں قرآنِ پاک کی آیت: ﴿إِنَّکَ لَاتَہدِيْ مَن أَحبَبْتَ﴾ [القصص، ع:۶]نازل ہوئی، جس کا ترجَمہ یہ ہے کہ: آپ