فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کے دِلوںمیں کچھ ایسی طرح سے جمتاتھا کہ پھر وہ اپنے سِوا کسی چیز کابھی نہ چھوڑتا تھا۔ روپیہ، پیسہ، راحت آرام؛ ہرقِسم کی چیزسے ہٹاکر اپنے میںلگا لیتا تھا۔ (۶)یَرمُوک کی لڑائی میں حضرت سعد کاخط تجویز: فیصلہ۔ تجویز: مُتعیَّن۔ صَلاح: تدبیر۔ رَذیل: کمینہ۔ بُغض: نفرت۔ بَشاشت: خوشی۔ دِلدادوں: عاشقوں۔ عراق کی لڑائی کے وقت حضرت عمرصکاارادہ خود لڑائی میں شرکت فرمانے کا تھا، عوام وخواص دونوں قِسموں کے مجمعوں سے کئی روز تک اِس میں مشورہ ہوتا رہا، کہ حضرت عمرص کا خود شریک ہونازیادہ مناسب ہے یامدینہ رہ کر لشکروں کے روانہ کرتے رہنے کاانتظام زیادہ مناسب ہے؟ عوام کی رائے تھی کہ: خودشرکت مناسب ہے، اورخواص کی رائے تھی کہ:دوسری صورت زیادہ بہتر ہے، مشوروں کی گفتگو میں حضرت سعدبن اَبی وقاص ص کابھی تذکرہ آگیا، اِن کو سب نے پسند کرلیا کہ اِن کو اگر بھیجا جاوے توبہت مناسب ہے، پھر حضرت عمرص کے جانے کی ضرورت نہیں، حضرت سعدص بڑے بہادراور عرب کے شَیروں میںشمارہوتے تھے، غرض یہ تجویز ہوگئی اوراُن کوبھیج دیا گیا، جب ’’قادِسِیَّہ‘‘ پر حملے کے لیے پہنچے توشاہِ کِسریٰ نے اُن کے مقابلے کے لیے رُستم کو -جو مشہور پہلوان تھا- تجویز کیا، رُستم نے ہرچندکوشش کی اور بادشاہ سے بار بار اِس کی درخواست کی کہ: مجھے اپنے پاس رہنے دیں، خوف کاغلبہ تھا؛ مگر اِظہار اِس کاکرتاتھا کہ مَیں یہاں سے لشکروں کے بھیجنے میں اور صَلاح مشورے میں مدد دوںگا؛مگر بادشاہ نے -جس کانام ’’یَزدَجِرد‘‘ تھا- قبول نہ کیا، اور اُس کو مجبوراً جنگ میں شریک ہوناپڑا۔ (اَشہر) حضرت سعدص جب روانہ ہونے لگے تو حضرت عمرصنے اُن کووصیت فرمائی، جس کے الفاظ کامختصر ترجَمہ یہ ہے: ’’سعد! تمھیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈالے کہ تم حضورﷺکے ماموں کہلاتے ہو، اور حضور ﷺ کے صحابی ہو، اللہ تعالیٰ بُرائی کوبُرائی سے نہیں دھوتے؛ بلکہ بُرائی کوبھلائی سے دھوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اور بندوں کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے، اُس کے یہاںصرف اُس کی بندگی مقبول ہے۔ اللہ کے یہاں شریف رَذیل سب برابر ہیں، سب ہی اُس کے بندے ہیں، اوروہ سب کارب ہے، اُس کے انعامات بندگی سے حاصل ہوتے ہیں۔ ہر اَمر میں اُس چیز کودیکھنا جو حضور ﷺ کا طریقہ تھا، وہی عمل کی چیز ہے۔ میری اِس نصیحت کویادرکھنا،تم ایک بڑے کام کے لیے بھیجے جارہے ہو،اِس سے چھُٹکارا صرف حق کے اِتِّباع سے ہوسکتا ہے، اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو خُوبی کا عادی بنانا، اللہ کے خوف کو اختیار کرنا، اور اللہ کاخوف دوباتوں میں جمع ہوتا ہے: اُس