فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مرتبہ پیٹ کے بَل لیٹے ہوئے تھے، حضورﷺنے دریافت فرمایا: پیٹ میں درد ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: ’’اُٹھ! نمازپڑھ، نمازمیں شفاء ہے‘‘۔(ابن کثیر۔۔۔۔۔۔) حضورِ اقدس ﷺنے ایک مرتبہ جنت کو خواب میں دیکھا، تو حضرت بلال صکے جوتوں کے گھسیٹنے کی آواز بھی سنائی دی، صبح کو حضورﷺنے پوچھا کہ: تیرا وہ خصوصی عمل کیاہے جس کی وجہ سے جنت میں بھی تُو (دُنیاکی طرح سے) میرے ساتھ ساتھ چلتارہا؟ عرض کیا کہ: رات دن میں جس وقت بھی میری وُضو ٹوٹ جاتی ہے تو وُضو کرتا ہوں، اِس کے بعد (تَحِیَّۃُالْوُضُوْءکی)نماز جتنی مَقدُورہو پڑھتا ہوں۔(بخاری ۔۔۔۔ فتح الباری۔۔۔۔۔) سفیریؒ نے کہاہے کہ: صبح کی نمازچھوڑنے والے کوملائکہ ’’اَو فاجر!‘‘ سے پکارتے ہیں، اورظہر کی نماز چھوڑنے والے کو ’’اَو خاسِر!‘‘ (خَسارہ والے) سے، اور عصرکی نماز چھوڑنے والے کو ’’عاصی!‘‘ سے، اور مغرب کی نمازچھوڑنے والے کو ’’کافر!‘‘ سے اورعشاء کی نماز چھوڑنے والے کو ’’مُضَیِّع!‘‘ (اللہ کاحق ضائع کرنے والے) سے پکارتے ہیں۔(غالیۃ المواعظ۔۔۔۔۔۔۔) عَلاَّمہ شَعرانیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مصیبت ہر اُس آبادی سے ہٹا دی جاتی ہے جہاں کے لوگ نمازی ہوں، جیساکہ ہر اُس آبادی پر نازل ہوتی ہے جہاں کے لوگ نمازی نہ ہوں، ایسی جگہوں میں زلزلوں کا آنا، بجلیوں کا گرنا، مکانوں کا دھنس جانا کچھ بھی مُستَبعَد نہیں، اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ، مَیں تونمازی ہوں مجھے دوسروں سے کیاغرض؟ اِس لیے کہ جب بَلانازل ہوتی ہے توعام ہواکرتی ہے۔ (خود حدیث شریف میں مذکور ہے: کسی نے سوال کیا کہ: ہم لوگ ایسی صورت میں ہلاک ہوسکتے ہیں کہ ہم میں صُلَحا موجود ہوں؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! جب خَباثت کاغلبہ ہوجائے)؛ اِس لیے کہ اُن کے ذمَّیہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی وُسعت کے مُوافق دوسروں کو بُری باتوں سے روکیں اور اچھی باتوں کاحکم کریں۔ (لواقح الانوار۔۔۔۔۔۔۔) (۸) رُوِيَ أَنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ قَالَ: مَنْ تَرَكَ الصَّلَاۃَ حَتیٰ مَضیٰ وَقْتُهَا ثُمَّ قَضیٰ عُذِّبَ فِيْ النَّارِحُقْباً، وَالْحُقْبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَّسِتُّوْنَ یَوْماً، کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ أَلْفَ سَنَۃٍ. (کذا في مجالس الأبرار، قلت: لم أجدہ فیما عندي من کتب الأحادیث؛ إلا أن مجالس الأبرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبدالعزیز الدهلويؒ، ثم قال الراغب في قولہ تعالیٰ: ﴿لابثین فیها أحقابا﴾: جمع الحقب أي: الدهر، قیل: والحقبۃ ثمانون عاما، وصحیح أن الحقبۃ مدۃ من الزمان مبهمۃ، وأخرج ابن کثیر في تفسیر قولہ تعالیٰ: ﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ، اَلَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاھُوْنَ﴾ عَن ابنِ عَبَّاسٍ: ’’أَنَّ فِيْ جَهَنَّمَ لَوَادِیاً تَستَعِیذُ جَهَنَّمُ مِن ذٰلِكَ الوَادِيْ فِيْ کُلِّ یَومٍ أَربَعَ مِائَۃِ مَرَّۃً، أُعِدَّ ذٰلِكَ الوَادِيُ لِلمُرائِینَ مِن أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ‘‘ الحدیث، وذکر أبواللیث السمرقندي في’’قرۃالعیون‘‘ عن ابن عباس: وهو مسکن من یؤخر الصلاۃ عن وقتها، وعن سعد بن أبي وقاص مرفوعاً: ﴿الذین هم عن صلاتهم ساھون﴾ قال: هم الذین یؤخرون الصلاۃ عن وقتها، وصحح الحاکم والبیهقي وقفہ، وأخرج الحاکم عن عبداللہ في قولہ تعالیٰ: ﴿فَسَوْفَ یَلقَوْنَ غَیًّا﴾ قَالَ: وَادٍ فِيْ جَهَنَّمَ، بَعِیدَ القَعرِ، خَبِیثَ الطُّعْمِ، وقال: صحیح الإسناد) ترجَمہ:حضورﷺ سے نقل کیاگیا ہے کہ: جو شخص نماز کوقضا کردے -گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے، پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے- ایک حُقَب جہنَّم میں جَلے گا،