فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
قوَّتِ قَلبِیہ اَعلیٰ درجے پر حاصل تھی، تو اُن کو ضَربیں لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی، حضورﷺکے زمانے سے جتنا بُعد ہوتا گیا اُتنی ہی قلب کے لیے اِس مُقوِّیٔ قَلب خَمیرہ کی ضرورت بڑھتی گئی، اب قلوب اِس درجہ مَاؤف ہوچکے ہیں کہ بہت سے علاج سے بھی وہ درجہ قوَّت کا تو حاصل نہیں ہوتا؛ لیکن جتنا بھی ہوجاتا ہے وہی بَساغنیمت ہے، کہ وَبائی مَرض میں جس قدر بھی کمی ہو بہتر ہے۔ ایک بزرگ کا قِصَّہ نقل کیا ہے کہ: اُنھوں نے اللہ جَلَّ شَانُہٗسے دعا کی کہ: شیطان کے وَسوسہ ڈالنے کی صورت اُن پر مُنکَشِف ہوجائے کہ کس طرح ڈالتا ہے؟ تو اُنھوں نے دیکھا کہ: دِل کے بائیں طرف مونڈھے کے پیچھے مچھر کی شکل سے بیٹھا ہے، ایک لمبی سی سُونڈ منھ پر ہے جس کوسُوئی کی طرح سے دل کی طرف لے جاتا ہے، اُس کو ذَاکِر پاتا ہے تو جلدی سے اُس سونڈ کو کھینچ لیتا ہے، غافل پاتا ہے تو اُس سونڈ کے ذریعے سے وَساوِس اور گناہوں کا زَہر اِنجِکشن کے طریقے سے دل میں بھرتا ہے۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔) ایک حدیث میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ: شیطان اپنی ناک کا اگلا حصہ آدمی کے دل پر رکھے ہوئے بیٹھا رہتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ذِلَّت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو اُس کے دل کولُقمہ بنالیتاہے۔(شعب الایمان للبیہقی،۔۔۔۔۔۔حدیث:۵۳۶) (۱۵)عَن أَبِي سَعِیدٍ الخُدرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: اَکثِرُوْا ذِکرَ اللہِ حَتّٰی یَقُولُوا مَجنُونٌ. (رواہ أحمد وأبویعلیٰ وابن حبان والحاکم في صحیحہ، وقال: صحیح الإسناد. وروي عن ابن عباس مرفوعاً بلفظ: اُذکُرُوا اللہَ ذِکراً یَقُولُ المُنَافِقُونَ إِنَّکُمْ مُرَاءُ وْنَ. رواہ الطبراني، ورواہ البیهقي عن أبي الجوزاء مرسلا، کذا في الترغیب، والمقاصد الحسنۃ للسخاوي، وهکذا في الدر المنثور للسیوطي؛ إلا أنہ عز حدیث أبي الجوزاء إلیٰ عبداللہ ابن أحمد في زوائد الزهد، وعزاہ في الجامع الصغیر إلیٰ سعید بن منصورفي سننہ، والبیهقي في الشعب، ورقم لہ بالضعف. وذکر في الجامع الصغیر أیضا بروایۃ الطبراني عن ابن عباس مسندا، ورقم لہ بالضعف. وعزا حدیث أبي سعید إلیٰ أحمد وأبي یعلیٰ في مسندہ، وابن حبان والحاکم والبیهقي في الشعب، ورقم لہ بالحسن) ترجَمہ: حضور ِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اللہ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ مَجنون کہنے لگیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: ایسا ذکر کرو کہ مُنافِق لوگ تمھیں رِیا کار کہنے لگیں۔ فائدہ: اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ: مُنافِقوں یا بے وَقوفوں کے رِیاکار کہنے یا مجنون کہنے سے ایسی بڑی دولت چھوڑنا نہ چاہیے؛ بلکہ اِس کثرت اور اِہتمام سے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ تم کو پاگل سمجھ کر تمھارا پیچھا چھوڑ دیں، اور مجنون جب ہی کہا جائے گا جب نہایت کثرت سے اور زور سے ذکر کیاجائے، آہستہ میں یہ بات نہیں ہوسکتی۔ تَوَنگَری: مال داری۔ دَریغ: کوتاہی۔ بَلا سے: کیا پرواہ ہے۔بیزار: تنگ۔ اَوَّاہِین: رجوع ہونے والے۔ اَذِیَّت: تکلیف۔ ابنِ کثیرؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس ص سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں