فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ذِکرشُغل چھُڑا دیا تھا، کہ مَبادا یہ حالت ترقی پکڑ جائے۔ اِس کے عِلاوہ یہ حضرات اِس لیے بھی بچتے ہیں کہ، اِس صورت میں دوسروں کے گناہوں کا اِظہار ہوتا ہے، جو اِن حضرات کے لیے تکدُّر کا سبب ہوتا ہے۔ علاَّمہ شَعرانیؒ نے ’’مِیزانُ الکُبریٰ‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضرت امام اعظمؒ جب کسی شخص کو وُضو کرتے ہوئے دیکھتے تو اُس پانی میں جوگناہ دُھلتا ہوا نظر آتا اُس کومعلوم کرلیتے، یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ کبیرہ گناہ ہے یا صَغیرہ، مکروہ فعل ہے یاخلافِ اَولیٰ؛ جیسا کہ حِسِّی چیزیں نظر آیا کرتی ہیں اِسی طرح یہ بھی معلوم ہوجاتا تھا۔ چناںچہ ایک مرتبہ کُوفہ کی جامع مسجد کے وُضو خانے میں تشریف فرماتھے، ایک جوان وُضو کر رہا تھا، اُس کے عُضو کاپانی گِرتے ہوئے آپ نے دیکھا، اُس کو چپکے سے نصیحت فرمائی کہ: بیٹا! والدین کی نافرمانی سے توبہ کرلے، اُس نے توبہ کی۔ ایک دوسرے شخص کو دیکھا تو اُس کو نصیحت فرمائی کہ: بھائی! زنا نہ کیا کر، بہت بُرا عیب ہے، اُس وقت اُس نے بھی زنا سے توبہ کی۔ ایک اَور شخص کو دیکھا کہ شراب خوری اور لَہو ولَعِب کا پانی گِررہا ہے، اُس کو بھی نصیحت فرمائی، اُس نے بھی توبہ کی؛ اَلغرض اِس کے بعد امام صاحبؒ نے اللہ دسے دعا کی کہ: اے اللہ! اِس چیز کو مجھ سے دُور فرما دے، کہ مَیں لوگوں کی بُرائیوں پر مُطَّلَع ہونا نہیں چاہتا، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے دعاقَبول فرمالی اور یہ چیز زائل ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ اُسی زمانے میں امام صاحبؒ نے مستعمَل پانی کے ناپاک ہونے کا فتویٰ دیا تھا، کیوںکہ جب وہ پانی گندہ اور مُتَعَفِّن نظر آتا تھا تو کیسے اُس کو پاک فرماتے؛ مگر جب یہ چیز زائل ہوگئی تو اُس کو ناپاک فرمانا بھی چھوڑ دیا۔(میزان، الکبریٰ،کتاب الطہارۃ۱؍۸۷) ہمارے حضرت مولانا اَلشَّاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہٗ کے خُدَّام میں ایک صاحب تھے جو کئی کئی روز اِس وجہ سے اِستِنجا نہیں جا سکتے تھے کہ ہرجگہ اَنوار نظر آتے تھے۔ اَور بھی سینکڑوں ہزاروں واقعات اِس قِسم کے ہیں جن میں کسی قِسم کے تردُّد کی گنجائش نہیں، کہ جن لوگوں کو کَشف سے کوئی حِصَّہ ملتا ہے وہ اُس حصے کے بہ قدر اَحوال کومعلوم کرلیتے ہیں۔ (۱۳) عَن أُمِّ هَانِیٍٔ قَالَتْ: مَرَّ بِيْ رَسُولُ اللہِﷺ، فَقُلتُ: یَارَسُولَ اللہِ! قَد کَبُرتُ وَضَعُفتُ -أَو کَمَا قَالَت-، فَمُرْنِي بِعَمَلٍ أَعمَلُہٗ وَأَنَا جَالِسَۃٌ، قَالَ: سَبِّحِيْ اللہَ مِائَۃَ تَسبِیحَۃً؛ فَإِنَّہٗ تَعدِلُ لَكِ مِائَۃَ رَقَبَۃً تَعتِقُهَا مِن وُلْدِ إِسمَاعِیلَ، وَاحمِدِي اللہَ مِائَۃَ تَحمِیدَۃٍ؛ فَإِنَّهَا تَعدِلُ لَكِ مِائَۃَ فَرَسٍ مُسرَجَۃٍ مُلجَمَۃٍ تَحمِلِینَ عَلَیهَا فِي سَبِیلِ اللہِ، وَکَبِّرِي اللہَ مِائَۃَ تَکبِیرَۃٍ؛ فَإِنَّهَا تَعدِلُ لَكِ مِائَۃَ بَدَنَۃٍ مُقَلَّدَۃٍ مُتَقَبَّلَۃٍ، وَهَلِّلِيْ اللہَ مِائَۃَ تَهلِیلَۃٍ؛ قَالَ أَبُوخَلفٍ: أَحسِبُہٗ قَالَ: تَملَأُ مَابَینَ السَّمَاءِ وَالأَرضِ، وَلَایَرفَعُ لِأَحَدٍ عَمَلٌ أَفضَلُ مِمَّا یَرفَعُ لَكِ؛ إِلَّا أَن یَّأْتِيَ بِمِثلِ مَا أَتَیتَ. (رواہ أحمد بإسناد حسن واللفظ لہ، والنسائي ولم یقل: ’’ولایرفع‘‘ إلیٰ اٰخرہ، والبیهقي بتمامہ، وابن أبي الدنیا؛ فجعل ثواب