فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
حُسنِ آواز اُس کے ساتھ مل جاوے تو ’’سونے پر سُہاگہ‘‘ ہے، جتنی بھی توجہ ہوظاہر ہے، اور انبیاء کے بعد اَلافضَل فَالافضَل حسبِ حیثیت پڑھنے والے کی طرف توجُّہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کان لگاکر تلاوت سننا (۲۶) عَن فُضَالَۃَ بنِ عُبَیدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: اَللہُ أَشَدُّ أُذُناً إلیٰ قَارِیِٔ الْقُراٰنِ مِنْ صَاحِبِ القَینَۃِ إِلیٰ قَینَتِہٖ. (رواہ ابن ماجہ وابن حبان والحاکم، کذا في شرح الإحیاء؛ قلت: وقال الحاکم: صحیح علیٰ شرطهما، وقال الذهبي: منقطع) ترجَمہ: فُضالہ ابن عُبیدص نے حضورِ اقدس ﷺسے نقل کیا ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قاری کی آواز کی طرف اُس شخص سے زیادہ کان لگاکر سنتے ہیں جو اپنی گانے والی باندی کا گانا سن رہا ہو۔ مُمانَعت: روک۔ غزلوں: نظم کی ایک قِسم جس میں عشق ومحبت کا ذکر ہوتا ہے۔دوبالا: دوہرا۔ نَواح: اَطراف۔ گوَیَّا: گانے والا۔مَقُولے: بات۔ نافِع: فائدہ مند۔ مُکلَّف: پابند۔ کَمَاحَقَّہٗ: جیسا اُس کاحق ہے۔ فائدہ:گانے کی آواز کی طرف فِطرۃً اور طَبعاً توجُّہ ہوتی ہے؛ مگر شرعی روک کی وجہ سے دِین دار لوگ اُدھر مُتوجَّہ نہیں ہوتے؛ لیکن گانے والی اپنی مملوکہ ہو تو اُس کا گانا سننے میںکوئی شرعی نُقص بھی نہیں؛ اِس لیے اُس طرف کامل توجُّہ ہوتی ہے؛ البتہ کلامِ پاک میں یہ ضروری ہے کہ، گانے کی آواز میں نہ پڑھاجائے، احادیث میں اِس کی مُمانَعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے: إیَّاکُمْ وَلُحُونَ أَہْلِ العِشقِ. (الحدیث) یعنی اِس سے بچو کہ، جس طرح عاشق غزلوں کو آواز بنا بنا کر موسیقی قوانین پر پڑھتے ہیں، اِس طرح مت پڑھو۔ مشائخ نے لکھا ہے کہ: اِس طرح کا پڑھنے والا فاسق اور سننے والا گنہ گارہے؛ مگر گانے کے قواعد کی رعایت کیے بغیر خوش آوازی مطلوب ہے۔ حدیث میں مُتعدِّد جگہ اِس کی ترغیب آئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے کہ: اچھی آواز سے قرآن شریف کو مُزیَّن کرو۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ: اچھی آواز سے کلامُ اللہ شریف کا حُسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی کتاب ’’غُنیہ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: عبداللہ بن مسعود ص ایک مرتبہ کوفہ کے نَواح میں جارہے تھے، کہ ایک جگہ فُسَّاق کا مجمع ایک گھر میں جمع تھا، ایک گوَیَّا -جس کا نام ’’زَاذان‘‘ تھا- گا رَہا تھا، اور سارنگی بجا رہا تھا، ابن مسعودص نے اُس کی آواز سن کر ارشاد فرمایا: کیا ہی اچھی آوازتھی اگر قرآن شریف کی تلاوت میں ہوتی! اور اپنے سر پر کپڑا ڈال کر گزرے ہوئے چلے گئے، زاذان نے اُن کو بولتے ہوئے دیکھا، لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا: عبداللہ بن مسعودص صحابی ہیں، اور یہ ارشاد فرماگئے، اُس پر اِس مَقُولے کی کچھ ایسی ہَیبت طاری ہوئی کہ حد نہیں، اورقصہ مختصر کہ وہ اپنے سب آلات توڑ کر ابن مسعودصکے پیچھے لگ گئے، اور علاَّمۂ وقت ہوئے۔