فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
[القصص،ع:۱۵]: ایسے شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو بغیر اِس کے کہ کوئی دلیل اللہ کی طرف سے (اُس کے پاس)ہو، اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ اَور بھی مُتعدِّد جگہ اِس قِسم کا مضمون وارد ہوا ہے، یہ شیطان کا بہت ہی سخت حملہ ہے کہ وہ غیرِ دین کو دین کے لباس میں سمجھاوے، اور آدمی اُس کو دِین سمجھ کر کرتا رہے، اور اُس پر ثواب کا اُمید وار بنا رہے، اور جب وہ اُس کو عبادت اور دین سمجھ کر کررہا ہے تو اُس سے توبہ کیوںکر کر سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص زِناکاری، چوری، وغیرہ گناہوں میں مُبتَلا ہو تو کسی نہ کسی وقت توبہ اور چھوڑ دینے کی اُمید ہے؛ لیکن جب کسی ناجائز کام کو وہ عبادت سمجھتا ہے تو اُس سے توبہ کیوں کرے؟ اور کیوں اُس کو چھوڑے؟ بلکہ دن بہ دن اُس میں ترقی کرے گا، یہی مطلب ہے شیطان کے اِس کہنے کا کہ: مَیں نے گناہوں میں مُبتَلا کیا؛ لیکن ذِکر اذکار، توبہ، اِستِغفار سے وہ مجھے دِق کرتے رہے، تومَیں نے ایسے جال میں پھانس دیا کہ اُس سے نکل ہی نہیں سکتے؛ اِس لیے دِین کے ہر کام میں نبیٔ اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام ث کے طریقے کو اپنا رہبر بنانا بہت ہی ضروری اَمر ہے، اور کسی ایسے طریقے کو اختیار کرنا جو خلافِ سنت ہو ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ ہے۔ اِمام غزالیؒ نے حَسَن بصریؒ سے بھی نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں یہ روایت پہنچی کہ: شیطان کہتاہے: مَیں نے اُمَّتِ محمَّدیہ کے سامنے گناہوں کو زَیب وزِینت کے ساتھ پیش کیا؛ مگر اُن کے اِستِغفار نے میری کمر توڑ دی، تو مَیں نے ایسے گناہ اُن کے پاس پیش کیے جن کو وہ گناہ ہی نہیں سمجھتے، کہ اُن سے استغفار کریں، اور وہ اَہوا یعنی بدعات ہیں، کہ وہ اُن کو دِین سمجھ کر کرتے ہیں۔ (احیاء العلوم،بیان تفصیل مداخل الشیطان۳؍۳۵) وَہَب بن مُنبَّہؒ کہتے ہیںکہ: اللہ سے ڈر، تُو شیطان کو مجمعوں میں لَعنت کرتا ہے اور چُپکے سے اُس کی اِطاعت کرتا ہے اور اُس سے دوستی کرتا ہے۔(احیاء العلوم۳؍۳۸) بعض صوفیا سے مَنقُول ہے کہ: کس قدر تعجب کی بات ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗجیسے مُحسِن کے اِحسانات معلوم ہونے کے بعد، اُن کے اِقرار کے بعد اُس کی نافرمانی کی جائے! اور شیطان کی دُشمنی کے باوجود، اُس کی عَیَّاری اور سَرکشی معلوم ہونے کے باوجود اُس کی اِطاعت کی جائے۔(احیاء العلوم۳؍۳۸) (۲۲)عَن مُعَاذِ بنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَایَمُوتُ عَبدٌ یَشهَدُ أَن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ، یَرجِعُ ذٰلِكَ إِلیٰ قَلبِ مُوقِنٍ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّۃَ، وَفِي رِوَایَۃٍ: إِلَّا غَفَرَ اللہُ لَہٗ. (أخرجہ أحمد، والنسائي، والطبراني، والحاکم، والترمذي في نوادر الأصول، وابن مردویہ، والبیهقي في الأسماء والصفات؛ کذا في الدر وابن ماجہ. وفي الباب عن عِمرَان بلفظ: ’’مَن عَلِمَ أَنَّ اللہَ رَبَّہٗ وَأَنِّي نَبِیُّہٗ مُوقِناً مِن قَلبِہٖ حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ‘‘. رواہ البزار، ورقم لہ في الجامع