فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
باطنی مَنافِع ہوتے ہیں جن کو بعض عُلَما نے سو تک شمار کیا ہے۔ اِنتہیٰ حضرت اَبواُمامہص کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا: مَیں نے خواب میں دیکھا کہ: جب بھی آپ اندر جاتے ہیں، یا باہر آتے ہیں، یا کھڑے ہوتے ہیں، یا بیٹھتے ہیں؛ تو فرشتے آپ کے لیے دعا کرتے ہیں، ابواُمامہ ص نے اُسے فرمایا: اگر تمھارادل چاہے تو تمھارے لیے بھی وہ دعا کرسکتے ہیں، پھر یہ آیت پڑھی: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکراً کَثِیراً﴾ سے ﴿رَحِیماً﴾ تک۔(مستدرَک حاکم ۲؍ ۴۵۳، حدیث: ۳۵۶۴؍ ۷۰۲) گویا اِس طرف اشارہ ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی رحمت اور ملائکہ کی دعا تمھارے ذکر پر مُتفَرِّع ہے، جتنا تم ذکر کروگے اُتنا ہی اُدھر سے ذکر ہوگا۔ (۱۴) عَن ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن عَجِزَ مِنکُمْ عَنِ اللَّیلِ أَن یُّکَابِدَہٗ، وَبَخِلَ بِالمَالِ أَن یُّنفِقَہٗ، وَجَبُنَ عَنِ العَدُوِّ أَن یُّجَاهِدَہٗ فَلیُکْثِرْ ذِکرَ اللہِ. (رواہ الطبراني، والبیهقي، والبزار؛ واللفظ لہ، وفي سندہ أبو یحییٰ القتات، وبقیۃ محتج بهم في الصحیح، کذا في الترغیب. قلت: هو من رواۃ البخاري في الأدب المفرد، والترمذي، وأبي داود، وابن ماجہ؛ وثَّقہ ابن معین وضعَّفہ آخرون. وفي التقریب: لین الحدیث، وفي مجمع الزوائد: رواہ البزار، والطبراني؛ وفیہ القتات قد وثق، وضعفہ الجمهور. وبقیۃ رجال البزار رجال الصحیح) ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جوتم میں سے عاجز ہو راتوں کومحنت کرنے سے، اور بُخل کی وجہ سے مال بھی خرچ نہ کیا جاتا ہو (یعنی نفلی صدقات)،اور بُزدِلی کی وجہ سے جِہاد میں بھی شرکت نہ کرسکتا ہو، اُس کو چاہیے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرے۔ تَلافی: کمی پوری کرنا۔ مَنافِع: فائدے۔ تَسلُّط: غلبہ۔قَوِی: مضبوط۔ قوَّتِ قَلبِیہ:دل کی طاقت۔ ضَربیں: کلمہ پڑھنے کا خاص طریقہ۔ بُعد: دُوری۔ مُقوِّیٔ قَلب خَمیرہ: دل کو مضبوط کرنے والی دوا۔ مَاؤف: بے حِس۔ بَسا: بہت۔ مُنکَشِف: کھُل۔ فائدہ: یعنی ہر قِسم کی کوتاہی جو عباداتِ نفلیہ میں ہوتی ہے، اللہ کے ذکر کی کثرت اُس کی تَلافی کرسکتی ہے۔ حضرت انسص نے حضورﷺ سے نقل کیا ہے کہ: اللہ کاذکر ایمان کی علامت ہے، اور نِفاق سے براء ت ہے، اور شیطان سے حفاظت ہے، اور جہنَّم کی آگ سے بچاؤ ہے۔(۔۔۔۔) اور اِنھیں مَنافِع کی وجہ سے اللہ کاذکر بہت سی عبادتوں سے اَفضل قرار دیا گیا ہے، بِالخُصُوص شیطان کے تَسلُّط سے بچنے میں اِس کو خاص دَخَل ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: شیطان گھٹنے جمائے ہوئے آدمی کے دل پر مُسلَّط رہتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو یہ عاجز وذلیل ہوکر پیچھے ہٹ جاتا ہے، آدمی غافل ہوتا ہے تو یہ وَسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔(مسند ابن ابی شیبہ،۱۹؍۲۴۲،حدیث:۳۵۹۱۹) اِسی لیے صوفیائے کِرام ذکر کی کثرت کراتے ہیں؛ تاکہ قلب میں اُس کے وَساوِس کی گنجائش نہ رہے، اور وہ اِتنا قَوِی ہوجائے کہ اُس کامقابلہ کرسکے، یہی راز ہے کہ صحابۂ کرامث کو حضورِ اقدس ﷺکے فیضِ صُحبت سے یہ