فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کروںگا۔ حضرت رُویفِع بن ثابت ص کی روایت سے حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کیاہے کہ: جو شخص یہ درود شریف پڑھے: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّأَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہے۔ علامہ سخاویؒ نے حضرت ابوہریرہص کی روایت سے نقل کیاہے کہ: جوشخص میری قبر کے پاس درود پڑھتاہے مَیں اُس کو سنتاہوں، اور جو شخص دُورسے مجھ پر درود پڑھتاہے اللہجَلَّ شَانُہٗ اُس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کردیتے ہیں جو مجھ تک درود کو پہنچائے، اور اُس کے دنیا وآخرت کے کاموں کی کفایت کردی جاتی ہے، اور مَیں قِیامت کے دن اُس کا گواہ یا سفارشی بنوںگا۔ ’’یا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ، بعض کے لیے سفارشی اور بعض کے لیے گواہ، مثلاً: اہلِ مدینہ کے لیے گواہ دوسروں کے لیے سفارشی، یا فرماںبرداروں کے لیے گواہ اور گناہوں کے لیے سفارشی ، وغیر ذلك؛ کما قالہ السخاوي. (۱۱) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: مَا مِنْ عَبْدٍ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً إِلَّا عَرَجَ بِھَا مَلَکٌ، حَتّٰی یُحَيِّ بِھَا وَجْهَ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ، فَیَقُوْلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: اِذْهَبُوْا بِھَا إِلیٰ قَبْرِ عَبْدِيْ، تَسْتَغْفِرُ لِقَائِلِھَا وَتَقِرُّ بِھَا عَیْنُہٗ. (أخرجہ أبوعلي بن البناء، والدیلمي في مسند الفردوس، وفي سندہ عمر بن حبیب، ضعفہ النسائي وغیرہ؛ کذا في القول البدیع) ترجَمہ: حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا نے حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیاہے کہ: جو شخص مجھ پر درود بھیجتاہے تو ایک فرشتہ اُس درود کو لے جاکر اللہجَلَّ شَانُہٗکی پاک بارگاہ میںپیش کرتا ہے، وہاں سے ارشاد عالی ہوتاہے کہ: اِس درود کو میرے بندے کی قبر کے پاس لے جاؤ، یہ اُس کے لیے استغفار کرے گا، اور اِس کی وجہ سے اُس کی آنکھ ٹھنڈی ہوگی۔ مُنتَہائے نظر: جہاں تک نظر جاسکے۔ فائدہ: ’’زادالسعید‘‘ میں ’’مواہبِ لَدُنیہ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ: قِیامت میں کسی مؤمن کی نیکیاں کم ہوجائیںگی تو رسول اللہﷺ ایک پرچہ سرِانگُشت کی برابر نکال کر میزان میںرکھ دیںگے، جس سے نیکیوں کا پلّہ وزنی ہوجائے گا، وہ مؤمن کہے گا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں، آپ کون ہیں؟ آپ کی صورت وسیرت کیسی اچھی ہے! آپ فرمائیںگے: مَیں تیرا نبی ہوں، اور یہ درود ہے جو تُونے مجھ پر پڑھا تھا، تیری حاجت کے وقت مَیںنے اِس کو ادا کردیا۔ اِس پر یہ اشکال نہ کیاجائے کہ، ایک پرچہ سرانگشت کی برابر میزان کے پلڑے کو کیسے جھُکادے گا؛ اِس لیے کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے، اور جتنا بھی اخلاص زیادہ ہوگا وتنا ہی وزن زیادہ ہوگا۔ حَدِیثُ البِطَاقَہ یعنی: ایک ٹکڑا کاغذ کا جس پر کلمۂ شہادت لکھاہواتھا وہ ننانوے دفتروں کے مقابلے میں -اور ہردفتر اِتنا بڑا کہ مُنتَہائے نظر تک ڈھیر لگا ہوا تھا- غالب آگیا۔ یہ حدیث مفصَّل اِس ناکارہ کے رسالہ ’’فضائلِ ذکر‘‘ باب دوم فصلِ سوم کی ۱۴؍ پر گذر چکی ہے، جس کا جی چاہے مفصَّل وہاں دیکھے۔ اور اُس میں یہ بھی ہے کہ، اللہ کے نام کے