فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
رکعتیں ہوئیں؟ اِس کے رنج اورصدمے کا ایسا غلبہ ہوا کہ اُس کی وجہ سے یہ ٹھان لی کہ: اِس باغ ہی کو اَب نہیں رکھنا جس کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی، چناںچہ حضرت عثمان ص کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آکر عرض کیا کہ: یہ اللہ کے راستے میں خرچ کرناچاہتا ہوں، اِس کو جو چاہے کیجیے، اُنھوں نے اِس باغ کوپچاس ہزار میںفروخت کرکے اِس کی قیمت دِینی کاموں میں خرچ فرمادی۔ (مُوطااِمام مالک، ص۴۳) فائدہ: یہ ایمان کی غیرت ہے کہ نماز جیسی اہم چیز میں خیال آجانے سے پچاس ہزار درہم کاباغ ایک دَم صدقہ کردیا۔ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قولِ جمیل‘‘ میں صوفیا کی نسبت کی قِسمیں تحریرفرماتے ہوئے اِس کے متعلِّق تحریر فرمایا ہے کہ: ’’یہ نسبت ہے اللہ کی اِطاعت کو ماسِوا پرمُقدَّم رکھنا اور اِس پرغیرت کرنا‘‘،کہ اِن حضرات کو اِس پرغیرت آئی کہ اللہ کی اِطاعت میں کسی دوسری چیزکی طرف توجُّہ کیوں ہوئی؟۔ (۷)حضرت ابن عباس کانمازکی وجہ سے آنکھ نہ بنوانا وَاللہ: اللہ کی قَسم۔ شَغَف: بے انتہا رغبت۔ فِدائی: عاشق۔ سَیر: تفریح، گھومناپھرنا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ص کی آنکھ میں جب پانی اُتر آیا، توآنکھ بنانے والے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ: اجازت ہو تو ہم آنکھ بنادیں؛ لیکن پانچ دن تک آپ کواِحتیاط کرنا پڑے گی، کہ سجدہ بجائے زمین کے کسی اونچی لکڑی پر کرنا ہوگا، اُنھوں نے فرمایا: یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، وَاللہ! ایک رکعت بھی اِس طرح پڑھنامجھے منظور نہیں، حضورﷺ کاارشاد مجھے معلوم ہے کہ: ’’جو شخص ایک نمازبھی جان کرچھوڑدے، وہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗسے ایسی طرح ملے گا کہ حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّسْاُس پر ناراض ہوں گے‘‘۔ (دُرِّمنثور، ۱؍ ۵۲۹) فائدہ: اگرچہ شرعاًنماز اِس طرح سے مجبوری کی حالت میں پڑھناجائز ہے، اوریہ صورت نماز چھوڑنے کی وعید میں داخل نہیں ہوتی؛ مگرحضرات صحابۂ کرام ثکو نماز کے ساتھ جوشَغَف تھا،ا ورنبیٔ اکرم ﷺکے ارشاد پر عمل کی جس قدر اَہمِّیَّت تھی، اُس کی وجہ سے حضرت ابن عباسص نے آنکھ بنوانے کوبھی پسند نہ کیا، کہ اُن حضرات کے نزدیک ایک نمازپر ساری دنیا قربان تھی۔ آج ہم بے حیائی سے جوچاہے اِن مَرمٹنے والوں کی شان میں منھ سے نکال دیں، جب کل اُن کا سامناہوگا اوریہ فِدائی میدانِ حشر کی سَیر کے لُطف اُڑا رہے ہوںگے، جب حقیقت معلوم ہوگی، کہ یہ کیاتھے اورہم نے اِن کے ساتھ کیابرتاؤ کیا؟۔ (۸)صحابہ کانمازکے وقت فوراًدُکانیں بندکرنا حضرت عبداللہ بن عمرص ایک مرتبہ بازار میںتشریف رکھتے تھے، کہ