فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
معلوم ہوتی، حافظ ابن حجرؒ نے مُنبِّہات میں لکھا ہے کہ: یحییٰ بن مُعاذ رازیؒ اپنی مُناجات میں کہا کرتے تھے: إِلٰہِي! لَایَطِیبُ اللَّیلُ إِلَّا بِمُنَاجَاتِكَ، وَلَایَطِیبُ النَّهَارُ إِلَّا بِطَاعَتِكَ، وَلَایَطِیبُ الدُّنیَا إِلَّا بِذِکرِكَ، وَلَایَطِیبُ الاٰخِرَۃُ إلَّا بِعَفوِكَ، وَلَاتَطِیبُ الجَنَّۃُ إِلَّا بِرُؤْیَتِكَ: یا اللہ! رات اچھی نہیں لگتی مگر تجھ سے راز ونیاز کے ساتھ، اور دن اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر تیری عبادت کے ساتھ، اور دنیا اچھی نہیں معلوم ہوتی مگر تیرے ذکر کے ساتھ، اور آخرت بھلی نہیں مگر تیری مُعافی کے ساتھ، اور جنت میں لُطف نہیں مگر تیرے دِیدار کے ساتھ۔ (منبہات، آخر باب الخماسی،ص:۵۰) حضرت سِرِّیؒ فرماتے ہیں کہ: مَیں نے جُرجانیؒ کو دیکھا کہ سَتُّو پھانک رہے ہیں، مَیں نے پوچھا کہ: یہ خشک ہی پھانک رہے ہو؟ کہنے لگے کہ: مَیںنے روٹی چبانے اور پھانکنے کا جب حساب لگایا تو چَبانے میں اِتنا وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ اُس میں آدمی سَتَّر مرتبہ سُبحَان اللہ کہہ سکتا ہے؛ اِس لیے مَیں نے چالیس برس سے روٹی کھانا چھوڑ دی، سَتُّو پھانک کر گزر کرلیتا ہوں۔(اِحیاء العلوم۲؍۲۸۶) مَنصُور بن مُعتمَرؒ کے مُتعلِّق لکھا ہے کہ: چالیس برس تک عشاء کے بعد کسی سے بات نہیں کی۔ رَبِیع بن خَیثَمؒ کے مُتعلِّق لکھا ہے کہ: بیس برس تک جو بات کرتے اُس کو ایک پرچے پرلکھ لیتے، اور رات کو اپنے دل سے حساب کرتے کہ: کتنی بات اُس میں ضروری تھی اور کتنی غیر ضروری؟۔(اِحیاء العلوم،کتاب آفات اللسان،۳؍۱۱۲) (۸) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ وَأَبِي سَعِیدٍ أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلیٰ رَسُولِ اللہِﷺ أَنَّہٗ قَالَ: لَا یَقعُدُ قَومٌ یَذکُرُونَ اللہَ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَۃُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحمَۃُ، وَنَزَلَتْ عَلَیهِمُ السَّکِینَۃُ، وَذَکَرَهُمُ اللہُ فِي مَن عِندَہٗ. (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، وأحمد، ومسلم، والترمذي، وابن ماجہ، والبیهقي؛ کذا في الدر والحصن والمشکاۃ. وفي حدیث طویل لأبي ذر: ’’أُوصِیكَ بِتَقْوَی اللہِ؛ فَإِنَّہٗ رَأْسُ الأَمرِ کُلِّہٖ، وَعَلَیكَ بِتِلَاوَۃِ القُراٰنِ وَذِکرِ اللہِ؛ فَإِنَّہٗ ذِکرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ وَنُورٌ لَكَ فِي الأَرضِ‘‘الحدیث. ذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني، وعبد بن حمید في تفسیرہ؛ ورقم لہ بالحسن) ترجَمہ:حضرت ابوہریرہ صاور حضرت ابوسعیدص دونوں حضرات اِس کی گواہی دیتے ہیں کہ: ہم نے حضورﷺسے سنا، ارشاد فرماتے تھے کہ: جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہو فرشتے اُس جماعت کو سب طرف سے گھیر لیتے ہیں، اور رحمت اُن کو ڈھانک لیتی ہے، اور سَکِینہ اُن پر نازل ہوتی ہے، اوراللہجَلَّ شَانُہٗ اُن کا تذکرہ اپنی مجلس میں تَفاخُر کے طور پر فرماتے ہیں۔ تَفاخُر: فخر۔ قَرابت: رشتے داری۔ تردُّد: آگے پیچھے،سوچ۔ مَلامَت: بُرا بھلا۔ عیب بِینی: عیب دیکھنا۔ شَرافت: بزرگی۔ مَعصِیت: گناہ۔ جُزو: حصَّہ۔قابلِ مَدح: تعریف کے قابل۔ حتیّٰ کہ: یہاں تک کہ۔ حضرت ابوذَرص نبیٔ اکرم ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: مَیں تجھے اللہ کے تقویٰ کی وَصِیَّت کرتا ہوں کہ تمام چیزوں کی جڑ ہے، اور قرآن شریف کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا اہتمام کر، کہ اِس سے آسمانوں میں تیرا ذکر ہوگا اور زمین میں نور کا سبب بنے گا، اکثر اوقات چپ رہا کر کہ بھلائی بغیر کوئی کلام