فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اور ٹکڑے کے محتاج بن جاتے ہیں، اِس وجہ سے آپ اپنے لاڈلے بچے کو اِس سے بچاتے ہیں، یاد رکھیں کہ اِس سے آپ اُس کو تو دائمی مصیبت میں گرفتار کر ہی رہے ہیں؛ مگر ساتھ ہی اپنے اوپر بھی سخت جواب دَہی لے رہے ہیں۔ حدیث کا ارشاد ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ، وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌعَنْ رَعِیَّتِہٖ. (الحدیث): ہر شخص سے اُس کے ماتحتوں اور دَست نِگروں کا بھی سوال ہوگا، کہ اُن کو کس قدر دِین سکھایا ہے؟ ہاں! یہ ضرور ہے کہ اُن عُیوب سے آپ بچنے اور بچانے کی کوشش کیجیے؛ مگر جُوؤں کے ڈر سے کپڑا نہ پہننا کوئی عقل کی بات نہیں؛ البتہ اُس کے صاف رکھنے کی ضرور کوشش چاہیے۔ بِالجُملہ اگر آپ اپنے بچے کو دِین داری، صلاحیت سکھلائیںگے اپنی جواب دَہی سے سبک دوش ہوںگے، اور اُس وقت تک وہ زندہ رہے گا جس قدر نیک اعمال کرے گا، دعاو استغفار آپ کے لیے کرے گا، آپ کے لیے رفعِ درجات کا سبب بنے گا؛ لیکن دنیا کی خاطر چار پیسے کے لالچ سے آپ نے اُس کو دِین سے بے بَہرہ رکھا، تو یہی نہیں کہ خود آپ کو اپنی حرکت کا وَبال بھگتنا پڑے گا، جس قدر بداَطواریاں، فِسق وفُجور اُس سے سَرزَد ہوںگے آپ کے نامۂ اعمال بھی اُس ذخیرے سے خالی نہ رہیںگے، خدارا اپنے حال پر رحم کھائیں، دنیا بہر حال گزر جانے والی چیز ہے، اور موت ہر بڑی سے بڑی تکلیف کا خاتمہ ہے؛ لیکن جس تکلیف کے بعد موت بھی نہیں اُس کا کوئی مُنتہا نہیں۔ حافظِ قرآن کی ایک خاص فضیلت (۱۲) عَنْ عُقْبَۃَ بنِ عَامِرٍقَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: لَو جُعِلَ القُراٰنُ فِي إهَابٍ ثُمَّ أُلقِيَ فِي النَّارِ مَااحْتَرَقَ. (رواہ الدارمي) ترجَمہ:عُقبہ بن عامرص کہتے ہیں کہ: مَیں نے حضورِ اقدس ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اگر رکھ دیا جاوے قرآن شریف کسی چمڑے میں، پھر وہ آگ میں ڈال دیا جاوے تو نہ جَلے۔ نَص: صَریح۔ خدارا: خدا کے واسطے۔ ہولناک: بھیانک۔ برگُزِیدہ: مقبول۔ فائدہ:مشائخِ حدیث اِس روایت کے مطلب میں دو طرف گئے ہیں: بعض کے نزدیک چمڑے سے عام مراد ہے جس جانور کا ہو، اور آگ سے دنیوی آگ مراد ہے، اِس صورت میں یہ مخصوص معجزہ ہے جو حضورِ اقدس ﷺکے زمانے کے ساتھ خاص تھا، جیسا کہ اَور انبیاء کے معجزے اُن کے زمانے کے ساتھ خاص ہوئے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ، چمڑے سے مراد آدمی کا چمڑا ہے اور آگ سے جہنَّم، اِس صورت میں یہ حکم عام ہوگا، کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہ ہوگا، یعنی جو شخص کہ حافظِ قرآن ہو، اگر وہ کسی جُرم میں جہنَّم میں ڈالا بھی جاوے گا تو آگ اُس پر اثر نہ کرے گی۔ ایک روایت میں ’’مَامَسَّتْہُ النَّارُ‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے، یعنی آگ اُس کو چھونے کی بھی نہیں۔ ابواُمامہص کی روایت -جس کو’’شَرحُ السُّنَّہ‘‘ سے مُلَّاعلی قاریؒ نے نقل کیا ہے- اِس دوسرے معنیٰ کی تائید