فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بعد ختمِ قرآن تک ’’مُفصَّل‘‘۔ یہ مشہور قول ہے، بعض بعض سورتوں میں اختلاف بھی ہے کہ: یہ طُوَل میں داخل ہیں یا مِئین میں، اِسی طرح مَثانی میں داخل ہیں یا مُفصَّل میں؛ مگر حدیث شریف کے مطلب ومقصود میں اِس اختلاف سے کوئی فرق نہیں آتا، مقصد یہ ہے کہ: جس قدر کُتبِ مشہورہ سماوِیہ پہلے نازل ہوئی ہیں اُن سب کی نَظِیر قرآن شریف میں موجود ہے، اور اُن کے عِلاوہ مُفصَّل اِس کلامِ پاک میں مخصوص ہے جس کی مثال پہلی کتابوںمیںنہیں ملتی۔ (۲۹) عَن أَبِي سَعِیدِ الخُدرِيِّ قَالَ: جَلَستُ فِي عِصَابَۃٍ مِنْ ضُعَفَاءِ المُهَاجِرِینَ، وَإنَّ بَعضَهُمْ لَیَستَتِرُ بِبَعضٍ مِنَ الْعُریٰ، وَقَارِیٌٔ یَقرَأُ عَلَینَا، إذ جَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ، فَقَامَ عَلَینَا، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللہِﷺ سَکَتَ القَارِیُٔ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ’’مَاکُنتُم تَصنَعُونَ‘‘؟ قُلنَا: نَستَمِعُ إِلیٰ کِتَابِ اللہِ تَعَالیٰ، فَقَالَ: ’’اَلحَمدُلِلّٰہِ الَّذِي جَعَلَ مِن أُمَّتِي مَن أُمِرتُ أَن أَصبِرَ نَفسِي مَعَهُم‘‘، قَالَ: فَجَلَسَ وَسطَنَا لِیَعدِلَ بِنَفسِہٖ فِینَا، ثُمَّ قَالَ بِیَدِہٖ: ’’هٰکَذَا‘‘، فَتَحَلَّقُوْا وَبَرَزَتْ وُجُوهُهُم لَہٗ، فَقَالَ: ’’أَبشِرُوا یَا مَعشَرَ صَعَالِیكَ الْمُهَاجِرِینَ! بِالنُّورِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، تَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ قَبلَ أَغنِیَاءِ النَّاسِ بِنِصْفِ یَوْمٍ، وَذٰلِكَ خَمْسُ مِأَۃِ سَنَۃٍ‘‘. (رواہ أبوداود) ترجَمہ: ابوسعیدخُدری صکہتے ہیں کہ: مَیں ضُعَفائے مُہاجرین کی جماعت میں ایک مرتبہ بیٹھا ہوا تھا، اُن لوگوں کے پاس کپڑا بھی اِتنا نہ تھا کہ جس سے پورا بدن ڈھانپ لیں، بعض لوگ بعض کی اَوٹ کرتے تھے، اور ایک شخص قرآن شریف پڑھ رہا تھا،کہ اِتنے میں حضورِ اقدس ﷺ تشریف فرماہوئے، اور بالکل ہمارے قریب کھڑے ہوگئے، حضورﷺکے آنے پر قاری چُپ ہوگیا، تو حضورﷺ نے سلام کیا، اور پھر دریافت فرمایا کہ: ’’تم لوگ کیا کررہے تھے‘‘؟ ہم نے عرض کیا کہ: کلامُ اللہ سن رہے تھے، حضورﷺنے فرمایا کہ: ’’تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے کہ، مجھے اُن میں ٹھہرنے کا حکم کیا گیا‘‘، اِس کے بعد حضورﷺ ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے؛ تاکہ سب کے برابر رہیں، (کسی کے قریب، کسی سے دُور نہ ہوں)، اِس کے بعد سب کو حلقہ کرکے بیٹھنے کا حکم فرمایا، سب حضورﷺکی طرف منھ کرکے بیٹھ گئے، تو حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’اے فُقَرائے مہاجرین! تمھیں مُژدہ ہو قیامت کے دن نورِ کامل کا، اور اِس بات کا کہ تم اغنیاء سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوںگے، اور یہ آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہوگا۔ اَوٹ: آڑ۔ مُژدہ: خوش خبری۔ حِجاب: شرم۔ مُستنبَط: ثابت۔ نادار: محتاج۔ فائدہ:ننگے بدن سے بہ ظاہر محلِّ سَتر کے عِلاوہ مراد ہے، مَجمَع میں ستر کے عِلاوہ اَور بدن کے کھُلنے سے بھی حِجاب معلوم ہوا کرتا ہے؛ اِس لیے ایک دوسرے کے پیچھے بیٹھ گئے تھے کہ بدن نظر نہ آوے۔ حضورﷺکے تشریف لانے کی اوَّل تو اُن لوگوں کو اپنی مشغولی کی وجہ سے خبر نہ ہوئی؛ لیکن جب حضور ﷺ بالکل سر پرتشریف لے آئے تو معلوم ہوا، اور قاری ادب کی وجہ سے خاموش ہوگئے۔ حضورﷺ کا دریافت فرمانا بہ ظاہر اظہارِ مَسرّت کے لیے تھا؛ ورنہ حضورﷺ قاری کو پڑھتے ہوئے دیکھ ہی چکے تھے۔ آخرت کا ایک دِن دنیا کے ہزاربرس کی برابر ہوتا ہے: ﴿وَإِنَّ یَوْماً عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ