فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
زمین کی طرف اُترتے ہیں۔ ’’مَظاہرِحَق‘‘ میں لکھا ہے کہ: اِسی رات میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی، اور اِسی رات میں آدم ں کا مادَّہ جمع ہونا شروع ہوا ،اِسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے۔ اور دعا وغیرہ کاقبول ہونا بہ کثرت روایات میں وَارِد ہے۔ ’’دُرِّمَنثُور‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ: اِسی رات میں حضرت عیسیٰ ں آسمان پر اُٹھا لیے گئے، اور اِسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔ ﴿سَلَامٌ﴾:وہ رات سراپا سَلام ہے۔ یعنی: تمام رات ملائکہ کی طرف سے مُومِنین پر سلام ہوتا رہتا ہے، کہ ایک فوج آتی ہے دوسری جاتی ہے، جیسا کہ بعض رِوایات میں اِس کی تَصرِیح ہے، یا یہ مراد ہے کہ: یہ رات سَراپا سلامتی ہے، شَروفَساد وغیرہ سے اَمَن ہے۔ ﴿هِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾: وہ رات (اِن ہی برکات کے ساتھ)تمام رات طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ رات کے کسی خاص حصے میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو؛ بلکہ صبح ہونے تک اِن برکات کاظہوررہتا ہے۔ اِس سورۂ شریفہ کے ذکر کے بعد -کہ خود اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے کلام پاک میں اِس رات کی کئی نوع کی فضیلتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں- احادیث کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی؛ لیکن اَحادیث میں بھی اِس کی فضیلت بہ کثرت وَارِد ہوئی ہے، اُن میں سے چند احادیث ذکر کی جاتی ہے: (۱)عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ قَامَ لَیلَۃَ القَدْرِ إیْمَاناً وَّاِحتِسَاباً غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ. (کذا في الترغیب عن البخاري ومسلم) ترجَمہ:نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص لیلۃُ القَدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہو، اُس کے پچھلے تمام گناہ مُعاف کردیے جاتے ہیں۔ رِیا: دِکھلاوا۔ بَشاشتِ قَلب: دلی خوشی۔ سَہَل: آسان۔ صَغِیرہ: چھوٹے۔ کَبیرہ: بڑے۔ إلَّا مَنْ تَابَ: مگر جو شخص توبہ کرے۔ نَدامَت: اَفسوس۔کاتحقُّق: پایاجانا۔ عَزم: پَکّا ارادہ۔مُرتکِب: عمل کرنے والا۔ اِجابت: قَبولِیت۔ سِیاہ کار: گنہ گار۔ مُخلِصانہ: خُلوص والی۔ فائدہ:کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے، اور اِسی حکم میں یہ بھی ہے کہ کسی اَور عبادت: تلاوت اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہو۔ اور ثواب کی اُمید رکھنے کامطلب یہ ہے کہ، رِیا وغیرہ کسی بدنِیَّتی سے کھڑا نہ ہو؛ بلکہ اخلاص کے ساتھ مَحض اللہ کی رَضا اور ثواب کے حُصول کی نیت سے کھڑا ہو۔ خَطَّابیؒ کہتے ہیں: اِس کامطلب یہ ہے کہ، ثواب کایقین کرکے بَشاشتِ قَلب سے کھڑا ہو، بوجھ سمجھ کر بددِلی کے ساتھ نہیں۔ اورکھلی ہوئی بات ہے کہ جس قدر ثواب کا یقین اور اعتماد زیادہ ہوگا اُتنا ہی عبادت میں مَشقَّت کابرداشت کرنا سَہَل ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جو شخص قُربِ اِلٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے عبادت میں