فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ء وَمَثْوَاكَ فِيْ قَلبِيْ فَأَینَ تَغِیْبُ ترجَمہ:تیری صورت میری نگاہ میں جَمی رہتی ہے، اور تیرا ذکر میری زبان پر ہر وقت رہتا ہے، تیرا ٹھکانہ میرا دل ہے، پس تُو کہاں غائب ہوسکتا ہے؟۔ (روض الریاحین،ص:۵۲حکایت:۳۶) حضرت جنید بغدادیؒ کا جب انتقال ہونے لگا تو کسی نے کلمۂ لَاإِلٰہَ إِلَّااللّٰہ تلقین کیا، فرمانے لگے: مَیں کسی وقت بھی اِس کو نہیں بھولا، (یعنی یاد تو اُس کو دِلاؤ جس کو کسی وقت بھی غفلت ہوئی ہو)۔ حضرت مَمشاد دِینوریؒ مشہور بزرگ ہیں، جس وقت اُن کا اِنتقال ہونے لگا تو کسی پاس بیٹھنے والے نے دعا کی: حق تَعَالیٰ شَانُہٗآپ کو (جنت کی)فلاں فلاں دولت عطا فرمائیں، تو ہنس پڑے، فرمانے لگے: تیس برس سے جنت اپنے سارے سازوسامان کے ساتھ میرے سامنے ظاہر ہوتی رہی ہے، ایک دفعہ بھی تو (اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی طرف سے توجُّہ ہٹاکر) اُدھر توجُّہ نہیں کی۔ حضرت رُویمؒ کو اِنتقال کے وقت کسی نے کلمہ تلقین کیا تو فرمانے لگے: مَیں اُس کے غیر کو اچھی طرح جانتا ہی نہیں۔ احمد بن خَضرویہؒ کا اِنتقال کا وقت تھا، کسی شخص نے کوئی بات پوچھی، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، کہنے لگے: پچانویں برس سے ایک دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں وہ اِس وقت کھلنے والا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ وہ سَعادت کے ساتھ کھلتا ہے یا بدبختی کے ساتھ؟ مجھے اِس وقت بات کی فرصت کہاں؟۔(احیاء العلوم،۴؍۴۸۲) (۱۹) وَعَنْ جُوَیرِیَۃَ أَنَّ النَّبِيَّﷺ خَرَجَ مِن عِندِهَا بُکرَۃً حِینَ صَلَّی الصُّبحَ وَهِيَ فِي مَسجِدِهَا، ثُمَّ رَجَعَ بَعدَ أَن أَضْحیٰ وَهِيَ جَالِسَۃٌ، قَالَ: مَازِلتَ عَلَی الحَالِ الَّتِي فَارَقتُكِ عَلَیهَا؟ قَالَتْ: نَعَم، قَالَ النَّبِيُّﷺ: لَقَد قُلتُ بَعدَكِ أَربَعَ کَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَو وُزِنَتْ بِمَا قُلتِ مُنذُ الیَومِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ عَدَدَ خَلقِہٖ، وَرِضَا نَفسِہٖ، وَزِنَۃَ عَرشِہٖ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ. (رواہ مسلم، کذا في المشکاۃ، قال القاري: وکذا أصحاب السنن الأربعۃ. وفي الباب: عَن صَفِیَّۃَ قَالَت: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِﷺ وَبَینَ یَدَيَّ أَربَعَۃُ اٰلَافٍ نَوَاۃٍ أُسَبِّحُ بِهِنَّ. الحدیث، أخرجہ الحاکم وقال الذهبي: صحیح) وَعَن سَعدِ بنِ أَبِي وَقَاصٍ أَنَّہٗ دَخَلَ مَعَ النَّبِيِّﷺ عَلیٰ اِمرَأَۃٍ وَبَینَ یَدَیهَا نَویٰ أَو حَصیٰ تُسَبِّحُ بِہٖ، فَقَالَ: أَلَا أُخبِرُكَ بِمَا هُوَ أَیسَرُ عَلَیكَ مِن هٰذَا أَو أَفضَلَ؟ سُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَاخَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرضِ، وَسُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَابَینَ ذٰلِكَ، وَسُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللہُ أَکبَرُ مِثلَ ذٰلِكَ، وَالحَمدُلِلّٰہِ مِثلَ ذٰلِكَ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مِثلَ ذٰلِكَ، وَلَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ مِثلَ ذٰلِكَ. (رواہ أبوداود والترمذي، وقال الترمذي: حدیث غریب؛ کذا في المشکوۃ، قال القاري: وفي نسخۃ: حسن غریب. اھ وفي المنهل: أخرجہ أیضا النسائي وابن ماجہ وابن حبان والحاکم والترمذي، وقال: حسن غریب من هذا الوجہ، اھ. قلت: وصححہ الذهبي)