فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہوش ہوکر گر جاتے تھے، اور زبان پر جاری ہوجاتا تھا: ’’هٰذَا کَلَامُ رَبِّيْ، هٰذَا کَلَامُ رَبِّيْ‘‘(یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے)۔ یہ اُن آداب کا اِجمال ہے اور اُن تفصیلات کا اختِصار ہے جو مشائخ نے آدابِ تلاوت میں لکھے ہیں، جن کی کسی قدر توضیح بھی ناظِرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، جن کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ، بندہ نوکر بن کر نہیں، چاکر بن کر نہیں؛ بلکہ بندہ بن کر آقا ومالک ومُحسِن و مُنعِم کا کلام پڑھے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ: جو شخص اپنے کو قراء ت کے آداب سے قاصِر سمجھتا رہے گا وہ قُرب کے مراتب میں ترقی کرتا رہے گا، اور جو اپنے کو رضا وعُجب کی نگاہ سے دیکھے گا وہ ترقی سے دُور ہوگا۔ آدابِ تلاوت: مسواک اور وُضو کے بعد کسییکسُوئی کی جگہ میں نہایت وَقار اور تواضع کے ساتھ رُو بہ قبلہ بیٹھے، اور نہایت ہی حضورِ قلب اور خشوع کے ساتھ اُس لُطف سے جو اُس وقت کے مناسب ہے، اِس طرح پڑھے کہ گویا خود حق سُبحَانَہٗ وَعَزَّ اسْمُہٗ کو کلامِ پاک سنارہا ہے، اگر وہ معنیٰ سمجھتا ہے تو تدبُّر وتفکُّر کے ساتھ آیاتِ وَعد ورحمت پر دُعائے مغفرت ورحمت مانگے، اور آیاتِ عذاب ووعید پر اللہ سے پناہ چاہے، کہ اُس کے سِوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، آیاتِ تنزِیہ وتقدِیس پر سُبْحَانَ اللہِ کہے، اور از خود تلاوت میں رونا نہ آوے تو بہ تکلُّف رونے کی سَعی کرے: وَأَلَذُّ حَالَاتِ الْغُرَامِ لِمُغْرِمٍ ء شِکْوَی الْہَویٰ بِالْمُدْمِعِ الْمُہْرَاقِ ترجَمہ: کسی عاشق کے لیے سب سے زیادہ لَذَّت کی حالت یہ ہے کہ، محبوب سے اُس کا گِلہ ہورہا ہو، اِس طرح کہ آنکھوں سے بارش ہو۔ پس اگر یاد کرنا مقصود نہ ہوتو پڑھنے میں جلدی نہ کرے، کلامِ پاک کو رَحَل یا تکیہ یا کسی اُونچی جگہ پر رکھے، تلاوت کے درمیان میں کسی سے کلام نہ کرے، اگر کوئی ضرورت پیش ہی آجاوے تو کلامِ پاک کو بندکرکے بات کرے، اور پھر اُس کے بعد أعُوْذُ پڑھ کر دوبارہ شروع کرے، اگر مجمع میں لوگ اپنے کاروبار میںمشغول ہوں تو آہستہ پڑھنا افضل ہے؛ ورنہ آواز سے پڑھنا اَولیٰ ہے۔ مشائخ نے تلاوت کے چھ آداب ظاہری اور چھ باطنی ارشادفرمائے ہیں: ظاہری آداب:اول: غایتِ احترام سے باوضو رُوبہ قبلہ بیٹھے۔ دوم: پڑھنے میں جلدی نہ کرے، ترتیل وتجوید سے پڑھے۔ سوم: رونے کی سَعی کرے، چاہے بہ تکلُّف ہی کیوں نہ ہو۔ چہارم: آیاتِ رحمت وآیاتِ عذاب کا حق ادا کرے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ پنجم: اگر رِیا کا احتمال ہو، یا کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف وحرج کا اندیشہ ہوتو آہستہ پڑھے؛ ورنہ آواز سے۔ ششم: خوش اِلحانی سے