فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جو مانگنا ہو اللہ سے مانگے، عنقریب ایسے لوگ آئیںگے جو پڑھنے کے بعد لوگوں سے بھیک مانگیںگے۔ مشائخ سے منقول ہے کہ: جو شخص علم کے ذریعے سے دنیا کماوے اُس کی مثال ایسی ہے کہ، جوتے کو اپنے رُخسار سے صاف کرے، اِس میں شک نہیں کہ جوتا تو صاف ہوجاوے گا؛ مگر چہرے سے صاف کرنا حَماقت کی انتہا ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوا ہے: ﴿أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ بِالْہُدیٰ﴾ الاٰیۃ:(یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے میںگمراہی خریدی ہے، پس نہ اُن کی تجارت کچھ نفع والی ہے اور نہ یہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں)۔ اُبَی بن کعب صکہتے ہیں کہ: مَیں نے ایک شخص کو قرآن شریف کی ایک سورۃ پڑھائی تھی، اُس نے ایک کَمان مجھے ہدیہ کے طور سے دی، مَیں نے حضور ﷺسے اِس کا تذکرہ کیا، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جہنَّم کی ایک کمان تُونے لے لی۔ اِسی طرح کا واقعہ عُبادہ بن الصَّامِت نے اپنے مُتعلِّق نقل کیا، اور حضور ﷺکا یہ جواب نقل کیا کہ: جہنَّم کی ایک چنگاری اپنے مونڈھوں کے درمیان لَٹکا دی۔ دوسری روایت میں ہے کہ: اگر تُو چاہے کہ جہنَّم کا ایک طوق گلے میں ڈالے تو اُس کو قبول کرلے۔ یہاں پہنچ کر مَیں اُن حُفَّاظ کی خدمت میں جن کا مقصود قرآن شریف کے مکتبوں سے فقط پیسہ ہی کمانا ہے، بڑے ادب سے عرض کروںگا کہ: لِلّٰہ اپنے مَنصَب اور اپنی ذمَّہ داری کا لحاظ کیجیے، جو لوگ آپ کی بدنیتوں کے حملہ کی وجہ سے کلام مجید پڑھانا یا حِفظ کرانا بند کرتے ہیں اُس کے وَبال میں وہ تنہا گرفتار نہیں، خود آپ لوگ بھی اُس کے جواب دِہ اور قرآن پاک کے بند کرنے والوں میں شریک ہیں، آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اِشاعت کرنے والے ہیں؛ لیکن درحقیقت اِس اشاعت کے روکنے والے ہم ہی لوگ ہیں، جن کی بداَطواریاں اور بدنیتیاں دنیا کو مجبور کررہی ہیں کہ وہ قرآنِ پاک ہی کوچھوڑ بیٹھیں۔ عُلَما نے تعلیم کی تنخواہ کو اِس لیے جائز نہیں فرمایا کہ ہم لوگ اِسی کو مقصود بنالیں؛ بلکہ حقیقتاً مُدرِّسین کی اصل غرض صرف تعلیم اور اشاعتِ علم وقرآن شریف ہونے کی ضرورت ہے، اور تنخواہ اُس کا مُعاوَضہ نہیں؛ بلکہ رفعِ ضرورت کی ایک صورت ہے جس کو مجبوراً اور اضطرار کی وجہ سے اختیار کیاگیا۔ خِلقت: پیدائش۔ مَعرفَت: پہچان۔ حَوائِج: ضرورتیں۔ تَخَلُّف: آگے پیچھے۔ تغیُّر: تبدیلی۔ تازیانہ: کوڑا۔گِراں: بوجھ۔ شاق: بھاری۔ بار: بوجھ۔ حَواسِ ظاہرہ: آنکھ، کان، ناک، ہاتھ، پیر۔حواسِ باطِنہ: حِسِّ مشترک، خَیال، وَہم، حافِظہ،مُتحرِّکہ۔ اِستحضار: یاد کرنے۔ وابَستگی: جوڑ۔ دل آویز: دل کو کھینچنے والی۔ اُلفت: محبت۔ سَعی: محنت۔اِضافہ: زیادتی۔ آب پاشی: پانی پلانا۔اِلتِفات: توجُّہ۔ مَحو: مٹ۔ خطّ وخال: …۔ رَفتار وگُفتار: چلنے اور بولنے کا انداز۔ تَتبُّع: تلاش۔ مُتلاشی: تلاش کرنے والا۔ مَنبَع: چشمہ۔ اے گل! بَتُو خُرسَندم تُوبُوئے کَسے داری: اے پھول! مَیں تجھ سے خوش ہوں اس لیے کہ تو کسی (محبوب)کی خوشبو رکھتا ہے۔ تَتِمّہ: کلام پاک کے اِن سب فضائل اورخوبیوں کے ذکر کرنے سے مقصود