فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
چار طریقے کے: دو عمل تو واجب کرنے والے ہیں، اور دو برابر سرابر، اور ایک دس گُنا، اور ایک سات سو گُنا؛ دو عمل جو واجب کرنے والے ہیں: ایک یہ کہ، جو شخص اِس حال میں مَرے کہ شِرک نہ کرتاہو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ دوسرے، جو شخص شرک کی حالت میں مَرے ضرور جہنَّم میں جائے گا۔ اور جو عمل برابر سرابر ہے وہ نیکی کا ارادہ ہے، کہ دل اُس کے لیے پختہ ہوگیا ہو؛(مگر اُس عمل کی نوبت نہ آئی ہو)۔اور دس گُنا اَجر ہے اگر عمل بھی کرلے۔ اور اللہ کے راستے میں (جہاد وغیرہ میں)خرچ کرنا سات سو درجے کا اَجر رکھتا ہے۔ اور گناہ اگر کرے تو ایک کا بدلہ ایک ہی ہے۔ اور چار قِسم کے آدمی یہ ہیں کہ: بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن پردنیا میں وُسعت ہے آخرت میں تنگی ہے، بعض ایسے ہیں جن پر دنیا میں تنگی ہے آخرت میں وُسعت، بعض ایسے ہیں جن پر دونوں جگہ تنگی ہے (کہ دنیا میں فَقر، آخرت میں عذاب ہے)،بعض ایسے ہیں کہ دونوں جہاں میں وُسعت ہے۔ (حاکم،کتاب الجہاد۲؍۹۶حدیث:۲۴۴۲؍ ۶۷) ایک شخص حضرت ابوہریرہ صکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مَیں نے سنا ہے: آپ یہ نقل کرتے ہیں کہ: اللہجَلَّ شَانُہٗ بعض نیکیوں کا بدلہ دس لاکھ گُنا عطا فرماتے ہیں؟ حضرت ابوہریرہص نے فرمایا: اِس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ مَیں نے خدا کی قَسم! ایسا ہی سنا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: مَیں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ: بعض نیکیوں کا ثواب بیس لاکھ تک ملتا ہے۔ (مسند ابن ابی شیبہ،کتاب الزہد، ۱۹؍ ۲۱۹ حدیث: ۳۵۸۴۸) اور جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗ﴿یُضَاعِفْهَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ أَجراً عَظِیماً﴾ (اُس کے ثواب کو اللہ بڑھاتے ہیں، اور اپنے پاس سے بہت سا اَجر دیتے ہیں)ارشاد فرمائیں، جس چیز کو اللہ اَجرِ عَظیم فرمائیںاُس کی مقدار کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ: ثواب کی اِتنی بڑی مقدار یں جب ہی ہوسکتی ہے جب اِن الفاظ کے مَعانی کا تصوُّر اور لِحاظ کرکے پڑھے، کہ یہ اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗکی اہم صفات ہیں۔ (۳۶) عَن عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: مَا مِنکُمْ مِن أَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیَبْلُغُ أَو فَیُسبِغُ الوُضُوءَ، ثُمَّ یَقُولُ: ’’أَشهَدُ أَنْ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ‘‘ إِلَّا فُتِحَتْ لَہٗ أَبوَابُ الجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃِ، یَدخُلُ مِنْ أَیِّهَا شَاءَ. (رواہ مسلم، وأبوداود، وابن ماجہ؛ وقالا: فَیُحْسِنُ الوُضُوءَ، زاد أبوداود: ’’ثُمَّ یَرفَعُ طَرفَہٗ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ یَقُولُ‘‘، فذکرہ، ورواہ الترمذي کأبي داؤد، وزاد: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِیْنَ، الحدیث، وتکلم فیہ. کذا في الترغیب. زاد السیوطي في الدر ابن أبي شیبۃ والدارمي) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص وُضو کرے اور اچھی طرح کرے، (یعنی: سنتوں اور آداب کی پوری رِعایت کرے)پھر یہ دعا پڑھے: أَشهَدُ أَنْ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ،اُس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں، جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔