فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ٹھہرجاؤ، جب یہ نماز کی نیت باندھ لیں تو کاٹ لینا، چناںچہ ایسا ہی کیاگیا، اُن کوخبر بھی نہ ہوئی۔ ابوعامرؒکہتے ہیں کہ: مَیں نے ایک باندی دیکھی جو بہت کم داموں پر فروخت ہو رہی تھی، جو نہایت دُبلی پَتلی تھی، اُس کا پیٹ کمر سے لگ رہا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے، مَیں نے اُس پر رحم کھاکر اُس کو خرید لیا، اُس سے کہا کہ: ہمارے ساتھ بازار چل، رمَضانُ المُبارک کے واسطے کچھ ضروری سامان خرید لیں، کہنے لگی: اللہ کاشکر ہے جس نے میرے واسطے سارے مہینے یکساں کردیے، وہ ہمیشہ دِن کو روزہ رکھتی، رات بھرنمازپڑھتی، جب عید قریب آئی تومَیں نے اُس سے کہا کہ: کل صبح بازار چلیںگے، تُوبھی ساتھ چلنا، عیدکے واسطے کچھ ضروری سامان خرید لائیںگے، کہنے لگی: میرے آقا! تم تو دنیا میں بہت ہی مشغول ہو، پھراندر گئی اورنماز میں مشغول ہوگئی، اور اِطمینان سے ایک ایک آیت مزے لے لے کر پڑھتی رہی، حتیٰ کہ اِس آیت پر پہنچی ﴿وَیُسْقیٰ مِنْ مَآئٍ صَدِیْدٍ﴾ الآیۃ (ابراہیم ع؍۳) اِس آیت کوبار بار پڑھتی رہی، اور ایک چیخ مار کر اِس دنیا سے رُخصت ہوگئی۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۳۷۹، ص ۴۳۳) نوبت: موقع۔ حِرص: تمنا، لالچ۔ دُشوار: مشکل۔ نَظیر: مثال۔ ناگَوار: ناپسند۔ آمادہ: تیار۔ صالح: نیک۔ کفیل: ذمہ دار۔ مُتولِّی: انتظام کرنے والا۔ صُلَحا: نیک لوگ۔ ایک سَیِّد صاحبؒ کاقِصَّہ لکھا ہے کہ: بارہ دن تک ایک ہی وُضو سے ساری نمازیں پڑھیں، اور پندرہ برس مسلسل لیٹنے کی نوبت نہیں آئی، کئی کئی دن ایسے گزرجاتے کہ کوئی چیز چَکھنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ اَہلِ مجاہَدہ لوگوں میں اِس قِسم کے واقعات بہت کثرت سے ملتے ہیں، اُن حضرات کی حِرص تو بہت ہی مشکل ہے، کہ اللہجَلَّ شَانُہٗنے اُن کوپیدا ہی اِس لیے فرمایاتھا؛ لیکن جو حضراتِ اکابر کہ دوسرے دِینی اور دُنیاوی مَشاغِل میں مشغول تھے، اُن کی حِرص بھی ہم جیسوں کو دُشوار ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے سب ہی واقف ہیں، خُلَفائے راشدین کے بعد اِنھیں کا شمار ہے، اِن کی بیوی فرماتی ہیں کہ: عمر بن عبدالعزیزؒ سے زیادہ وُضو اورنماز میں مشغول ہونے والے تو اَور بھی ہوںگے؛ مگر اِن سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا مَیں نے نہیں دیکھا، عشاء کی نماز کے بعد مُصلَّے پر بیٹھ جاتے، اور دُعا کے واسطے ہاتھ اُٹھاتے اور روتے رہتے، حتیٰ کہ اِسی میں نیند کاغلبہ ہوتا تو آنکھ لگ جاتی، پھر جب کھل جاتی تواِسی طرح روتے رہتے اور دعا میں مشغول رہتے۔ کہتے ہیں کہ: خِلافت کے بعدسے جَنابَت کے غسل کی نوبت نہیں آئی۔ اِن کی بیوی عبدُالمَلِک بادشاہ کی بیٹی تھیں، باپ نے بہت سے زیورات، جواہِر دیے تھے، اور ایک ایسا ہیرا دیا تھا جس کی نَظیر نہیں تھی، آپ نے بیوی سے فرمایاکہ: دوباتوں میں سے ایک اختیار کر: یاتو وہ زیور سارا اللہ واسطے دے کہ مَیں اُس کو بیتُ المال میں