فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مَیں نے اپنے اُستادحضرت بِشر حافی کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو یہی سوال کیا تھا، اُنھوں نے فرمایا تھا کہ: مَیں نے اپنے اُستاد حضرت عمر مکیؒ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تھی تو یہی سوال کیا تھا، اُنھوں نے فرمایا کہ: مَیں نے اپنے اُستاد حضرت حسن بصریؒ (جو سارے مَشائخِ چِشتِیہ کے سَرگِروہ ہیں)کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تھی تو عرض کیا تھا کہ: آپ کی اِس رَفعتِ شان اور عُلُوِّ مرتبہ کے باوجود بھی اب تک تسبیح آپ کے ہاتھ میں ہے؟ تو اُنھوں نے فرمایا تھا کہ: ہم نے تصوُّف کی اِبتدا میںاِس سے کام لیا تھا، اور اِس کے ذریعے سے ترقی حاصل کی تھی، تو گَوارا نہیں کہ اب اَخیرمیں اِس کو چھوڑ دیں، مَیں چاہتا ہوں کہ اپنے دل سے، زبان سے، ہاتھ سے؛ ہر طرح اللہ کا ذکر کروں۔(نزہۃ الفکرص:۷) مُحدِّثانہ حیثیت سے اِن میں کلام بھی کیاگیاہے۔ (۲۰)عَن ابنِ أَعبُدٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: أَلَاأُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَن فَاطِمَۃَ بِنتِ رَسُولِ اللہِﷺ وَکَانَت مِن أَحَبِّ أَهلِہٖ إِلَیہِ؟ قُلتُ: بَلیٰ، قَالَ: إِنَّهَا جَرَتْ بِالرَّحیٰ حَتّٰی أَثَرَ فِي یَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالقِربَۃِ حَتّٰی أَثَر فِي نَحرِهَا، وَکَنَسَتِ البَیتَ حَتَّی اغْبَرَّتْ ثِیَابُهَا، فَأَتَی النَّبِيَّﷺ خَدَمٌ، فَقُلتُ: لَوأَتَیتِ أَبَاكِ فَسَأَلتِہٖ خَادِماً، فَأَتَتْہُ فَوَجَدَتْ عِندَہٗ حَدَاثاً فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا مِنَ الغَدِ، فَقَالَ: مَا کَانَ حَاجَتُكِ؟ فَسَکَتَتْ، فَقُلتُ: أَنَا أُحَدِّثُكَ یَارَسُولَ اللہِ! جَرَتْ بِالرَّحیٰ حَتّٰی أَثَرَتْ فِي یَدِهَا، وَحَمَلَتْ بِالقِربَۃِ حَتّٰی أَثَرَتْ فِي نَحرِهَا، فَلَمَّا أَنْ جَاءَ كَ الخَدَمُ أَمَرتُهَا أَن تَأْتِیَكَ فَتُسْتَخْدِمَكَ خَادِماً یَقِیهَا حَرَّ مَا ھِيَ فِیہِ، قَالَ: اِتَّقِي اللہَ یَافَاطِمَۃَ! وَأَدِّي فَرِیضَۃَ رَبِّكَ، وَاعمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضجَعَكِ فَسَبِّحِيْ ثَلَاثاً وَثَلَاثِینَ، وَاحمِدِي ثَلَاثاً وَثَلَاثِینَ، وَکَبِّرِيْ أَربَعاً وَّثَلَاثِینَ؛ فَتِلْكَ مِائَۃٌ، فَهِيَ خَیرُ لَكِ مِنْ خَادِمٍ، قَالَتْ: رَضِیتُ عَنِ اللہِ وَعَنْ رَسُولِہٖ. (أخرجہ أبوداود، وفي الباب عَنِ الفَضلِ بنِ الحَسَنِ الضَّمُرِي: أَنَّ أُمَّ الحَکَمِ أَو ضَبَاعَۃُ -اِبنَتَيْ الزُّبَیرِ بنِ عَبدِالمُطَّلِبِ- حَدَّثَتْہُ عَن أَحَدَیهِمَا أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولَ اللہِﷺ سَبِیًّا، فَذَهَبَتُ أَنَا وَأُختِيْ وَفَاطِمَۃُ بنتِ رَسُولِ اللہِﷺ، فَشَکَونَا إِلَیہِ مَانَحنُ فِیہِ، وَسَأَلنَاہُ أَن یَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنَ السَّبِيِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: سَبَقَکُنَّ یَتَامیٰ بَدْرٍ؛ وَلٰکِنْ سَأَدُلُّکُنَّ عَلیٰ مَا هُوَ خَیرٌ لَکُنَّ مِن ذٰلِكَ، تُکَبِّرْنَ اللہَ عَلیٰ أَثَرِ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثاً وَثَلَاثِینَ تَکبِیرَۃً، وَثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ تَسبِیحَۃً، وَثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ تَحمِیدَۃً، وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، لَہُ المُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ. رواہ أبوداود. وفي الجامع الصغیر بروایۃ ابن مندۃ عَن جَلِیسٍ کَانَ یَأْمُرُ نِسَاءَ ہٗ إِذَا أَرَادَتْ إِحدَاهُنَّ أَن تَنَامَ أَن تَحمَدَ. الحدیث، ورقم لہ بالضعف) ترجَمہ: حضرت علی ص نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایاکہ: مَیں تمھیں اپنا اور اپنی بیوی فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا کا -جو حضورﷺکی صاحب زادی اور سب گھروالوں میں زیادہ لاڈلی تھیں- قِصَّہ نہ سناؤں؟ اُنھوں نے عرض کیا: ضرور سنائیں، فرمایا کہ: وہ خود چکی پیستی تھی جس سے ہاتھوں میں گَٹے پڑ گئے تھے، اور خود ہی مَشک بھر کر لاتی تھیں جس سے سینے پر رَسی کے نشان پڑ گئے تھے، خود ہی جھاڑو دیتی تھیں جس کی وجہ سے کپڑے مَیلے رہتے تھے، ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺکی خدمت میں کچھ لونڈی غلام آئے، مَیں نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ: تم اگر اپنے والد صاحب کی خدمت میں جاکر ایک خادم مانگ لاؤ تو اچھا ہے، سَہولت رہے گی، وہ گئیں، حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں لوگوں کا مجمع تھا؛ اِس لیے واپس چلی آئیں، حضور ﷺ دوسرے روز خودہی مکان پر تشریف لائے اورفرمایا: تم کل کس کام کو آئی تھیں؟وہ چپ ہوگئیں (شرم کی وجہ سے بول بھی نہ سکیں)،مَیں نے عرض کیا: حضور!