فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
القُراٰنِ؛ لَانَبِيٌّ، وَلَامَلَكٌ، وَلَا غَیرُہٗ. (قال العراقي: رواہ عبدالملك بن حبیب، کذا في شرح الإحیاء) ترجَمہ: سعیدبن سُلیم حضورِاکرم ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: قِیامت کے دن اللہ کے نزدیک کلامِ پاک سے بڑھ کر کوئی سفارش کرنے والا نہ ہوگا، نہ کوئی نبی، نہ فرشتہ وغیرہ۔ وَضع: گھَڑنے۔ مُنکَر نکِیر: قبر میں سوال کرنے والے فرشتے۔ تطویل: لمبی ہونے۔ فائدہ:کلامُ اللہ شریف کا شفیع اور اِس درجے کاشفیع ہونا جس کی شفاعت مقبول ہے اَور بھی مُتعدِّد روایات سے معلوم ہوچکا۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗاپنے فضل سے میرے اور تمھارے لیے اُس کو شفیع بنادے نہ کہ فریقِ مخالف اور مُدَّعِی۔ ’’لَاٰلِیُٔ المَصنُوعَۃ‘‘ میں ’’بَزَّار‘‘ کی روایت سے نقل کیا ہے -اور وَضع کاحکم بھی اُس پر نہیں لگایا- کہ: جب آدمی مرتا ہے تو اُس کے گھر کے لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول ہوتے ہیں، اور اُس کے سِرہانے نہایت حسین وجمیل صورت میں ایک شخص ہوتا ہے، جب کفن دیا جاتا ہے تو وہ شخص کفن کے اور سینے کے درمیان ہوتا ہے، جب دفن کرنے کے بعد لوگ لوٹتے ہیں اور مُنکَر نکِیر آتے ہیں تو وہ اُس شخص کو علاحدہ کرنا چاہتے ہیں، کہ سوال یکسوئی میں کریں؛ مگر یہ کہتا ہے کہ: یہ میرا ساتھی ہے، میرا دوست ہے، مَیں کسی حال میں بھی اِس کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا، تم سوالات کے لیے اگر مامور ہوتو اپنا کام کرو، مَیں اُس وقت تک اِس سے جدا نہیں ہوسکتا کہ جنت میں داخل کراؤں، اِس کے بعد وہ اپنے ساتھی کی طرف مُتوجَّہ ہوکر کہتا ہے کہ: مَیں ہی وہ قرآن ہوں جس کو تُو کبھی بلندپڑھتا تھااور کبھی آہستہ، تُوبے فکر رہ، مُنکَر نکیر کے سوالات کے بعد تجھے کوئی غم نہیں ہے، اِس کے بعد جب وہ اپنے سوالات سے فارغ ہوجاتے ہیں تو یہ ملائِ اعلیٰ سے بستر وغیرہ کا انتظام کرتا ہے، جو ریشم کا ہوتا ہے اور اُس کے درمیان مُشک بھرا ہوا ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی نصیب فرماویں اور تمھیں بھی۔ یہ حدیث بڑے فضائل پر شامل ہے جس کو تطویل کے خوف سے مختصر کردیا۔ (۳۵) عَن عَبدِاللہِ بنِ عَمْروٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَن قَرَأَ القُراٰنَ فَقَدِ اسْتَدرَجَ النُّبُوَّۃَ بَینَ جَنبَیہِ غَیرَ أَنَّہٗ لَایُوحیٰ إلَیہِ، لَایَنبَغِي لِصَاحِبِ القُراٰنِ أَن یَجِدَ مَعَ مَن وَجَدَ، وَلَایَجهَلَ مَعَ مَن جَهِلَ وَفِي جَوفِہٖ کَلَامُ اللہِ. (رواہ الحاکم وقال: صحیح الإسناد) ترجَمہ:عبداللہ بن عَمروصنے حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد نقل کیا ہے کہ: جس شخص نے کلامُ اللہ شریف پڑھا اُس نے علومِ نبوّت کو اپنی پسلیوں کے درمیان لے لیا، گو اُس کی طرف وحی نہیں بھیجی جاتی، حاملِ قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ غصے والوں کے ساتھ غصہ کرے، یا جاہلوں کے ساتھ جَہالت کرے؛ حالاںکہ اُس کے پیٹ میں اللہ کا کلام ہے۔ تأمُّل: شک۔ فائدہ: چوںکہ وحی کا سلسلہ نبیٔ کریم ﷺکے بعد ختم ہوگیا؛ اِس لیے وحی تو اب نہیں آسکتی؛ لیکن چوںکہ یہ حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس کا پاک کلام ہے؛ اِس