فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
چوںکہ یہ پاک کلمہ دِین کی اصل ہے، ایمان کی جڑ ہے؛ اِس لیے جتنی بھی اِس کی کثرت کی جائے گی اُتنی ہی ایمان کی جڑ مضبوط ہوگی، ایمان کا مدار اِسی کلمے پر ہے؛ بلکہ دنیا کے وُجود کا مدار اِسی کلمے پر ہے؛ چناںچہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ: قِیامت اُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے والا کوئی زمین پر ہو۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۳۸۳۳) دوسری حدیثوں میں آیا ہے کہ: جب تک کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا رُوئے زمین پر ہو، قِیامت نہیں ہوگی۔(۔۔۔۔۔۔۔۔) (۲)عَن أَبِي سَعِیدٍ الخُدرِيِّ عَنِ النَّبِيِّﷺ أَنَّہٗ قَالَ: قَالَ مُوسیٰں:یَارَبِّ! عَلِّمْنِي شَیئًا أَذکُرُكَ بِہٖ وَأَدْعُوكَ بِہٖ، قَالَ: قُلْ: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، قَالَ: یَارَبِّ! کُلُّ عِبَادِكَ یَقُولُ هٰذَا، قَالَ: قُلْ: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، قَالَ: إِنَّمَا أُرِیدُ شَیئًا تَخُصُّنِي بِہٖ، قَالَ: یَامُوسیٰں لَو أَنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَالأَرضِینَ السَّبعِ فِي کَفَّۃٍ وَ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ فِي کَفَّۃٍ مَالَتْ بِهِمْ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ. (رواہ النسائي وابن حبان والحاکم؛ کلهم من طریق دراج عن أبي الهیثم عنہ، وقال الحاکم: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب. قلت: قال الحاکم: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، وأقرہ علیہ الذهبي. وأخرج في المشکوۃ بروایۃ شرح السنۃ نحوہ، زاد في منتخب الکنز أبا یعلیٰ والحکیم، وأبانعیم في الحلیۃ، والبیهقي في الأسماء، وسعید بن منصور في سننہ، وفي مجمع الزوائد رواہ أبویعلیٰ، ورجالہ وثقوا، وفیهم ضعف) ترجَمہ:حضور ِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ نے اللہد کی پاک بارگاہ میں عرض کیا کہ: مجھے کوئی وِرد تعلیم فرمادیجیے جس سے آپ کو یاد کیا کروں اور آپ کو پُکارا کروں، ارشادِ خداوندی ہوا کہ: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کہا کرو، اُنھوں نے عرض کیا: اے پروردگار! یہ تو ساری ہی دنیا کہتی ہے، ارشاد ہوا کہ: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کہا کرو، عرض کیا: میرے رب! مَیں تو کوئی ایسی مخصوص چیز مانگتا ہوں جو مجھی کو عطا ہو، ارشاد ہوا کہ: اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسری طرف لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کو رکھ دیا جائے تو لَاإلٰہَ إِلَّااللہُوالا پلڑا جھک جائے گا۔ تجویز: متعیَّن۔ اِضافہ: زیادتی۔ فائدہ:اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ عَمَّ نَوَالُہٗ کی عادتِ شریفہ یہی ہے کہ، جو چیز جس قدر ضرورت کی ہوتی ہے اُتنی ہی عام عطاکی جاتی ہے، ضروریاتِ دنیویہ ہی میں دیکھ لیا جائے کہ: سانس، پانی، ہواکیسی عام ضرورت کی چیزیں ہیں! اللہجَلَّ شَانُہٗنے اُن کو کس قدر عا م فرما رکھا ہے! البتہ یہ ضروری چیز ہے کہ، اللہ کے یہاں وزن اِخلاص کاہے، جس قدر اخلاص سے کوئی کام کیا جائے گا اُتنا ہی وزنی ہوگا، اور جس قدر اخلاص کی کمی اور بے دِلی سے کیا جائے گا اُتنا ہی ہلکا ہوگا۔ اِخلاص پیدا کرنے کے لیے بھی جس قدر مُفِید اِس کلمے کی کثرت ہے اُتنی کوئی دوسری چیز نہیں، کہ اِس کلمے کانام ہی’’جِلَاءُ الْقُلُوب‘‘ (دِلوں کی صفائی)ہے۔ اِسی وجہ سے حضراتِ صوفیا اِس کا وِرد کثرت سے بتاتے ہیں، اور سیکڑوں نہیں؛ بلکہ ہزاروں کی مقدار میں روزانہ کا معمول تجویز کرتے ہیں۔ مُلَّا علی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: ایک مرید نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ: مَیں ذکر کرتا ہوں مگر دل غافل رہتا ہے، اُنھوں نے فرمایا کہ: ذکر برابر