فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
فضائل اِس میں ذکر کیے گئے ہیں اُن کی تائید دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے، نیز اِن کے عِلاوہ بہت سے فضائل حدیث کی کتابوں میں بہ کثرت آئے ہیں؛ اِسی وجہ سے عالم اور طالبِ علم کو خاص طور سے حدیثِ بالا میں ذکر فرمایا ہے۔ حافظ ابن قَیِّمؒ ایک مشہور مُحدِّث ہیں، اِنھوں نے ایکمَبسُوط رِسالہ عربی میں ’’اَلْوَابِلُ الصَّیِّب‘‘ کے نام سے ذکر کے فضائل میں تصنیف کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ: ذکر میں سو سے بھی زیادہ فائد ے ہیں، اُن میں سے نمبر وار اُناسِّی(۷۹) فائدے اُنھوں نے ذکر فرمائے ہیں، جن کو مختصراً اِس جگہ ترتیب وار نقل کیا جاتا ہے، اور چوںکہ بہت سے فوائداِن میں ایسے ہیں جو کئی کئی فائدوں کو شامل ہیں، اِس لِحاظ سے یہ سو سے زیادہ کومُشتمِل ہیں: (۱)ذکر شیطان کو دَفع کرتا ہے اور اُس کی قوَّت کوتوڑتا ہے۔ (۲)اللہ د کی خوش نُودی کا سبب ہے۔ (۳)دل سے فکر وغم کو دُور کرتاہے۔ (۴)دل میں فَرحت، سُرور اور اِنبِساط پیدا کرتا ہے۔ (۵)بدن کو اور دل کو قوَّت بخشتا ہے۔ (۶)چہرے اور دل کو مُنوَّر کرتا ہے۔ (۷) رِزق کو کھینچتا ہے۔ (۸)ذکر کرنے والے کو ہَیبت اور حَلاوت کا لباس پہناتا ہے، یعنی اُس کے دیکھنے سے رُعب پڑتا ہے، اور دیکھنے والوں کو حَلاوت نصیب ہوتی ہے۔ (۹)اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ کی مَحبت پیدا کرتا ہے، اور مَحبت ہی اِسلام کی رُوح اور دین کا مرکز ہے، اور سَعادت اور نجات کا مَدار ہے، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ کی مَحبت تک اُس کی رَسائی ہو، اُس کو چاہیے کہ اُس کے ذکر کی کثرت کرے، جیسا کہ پڑھنا اور تکرار کرنا علم کا دروازہ ہے اِسی طرح اللہ کاذکر اُس کی محبت کا دروازہ ہے۔ (۱۰) ذکر سے مُراقبہ نصیب ہوتا ہے جو مرتبۂ احسان تک پہنچادیتا ہے، یہی مرتبہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسی نصیب ہوتی ہے گویااللہجَلَّ شَانُہٗ کو دیکھ رہا ہے، (یہی مرتبہ صوفیا کا مُنتَہائے مَقصَد ہوتا ہے)۔ (۱۱)اللہ کی طرف رُجوع پیدا کرتا ہے، جس سے رَفتہ رَفتہ یہ نوبت آجاتی ہے کہ ہرچیز میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُس کی جائے پناہ اور ماویٰ، مَلْجا بن جاتے ہیں، اورہر مصیبت میں اُسی کی طرف توجُّہ ہوجاتی ہے۔ (۱۲)اللہ کا قُرب پیدا کرتا ہے، اور جتنا ذکر میں اِضافہ ہوتا ہے اُتنا ہی قُرب میں اِضافہ ہوتا ہے، اور جتنی ذکر سے غفلت ہوتی ہے اُتنی ہی اللہ سے دُوری ہوتی ہے۔ (۱۳)اللہ کی مَعرفَت کا دروازہ کھولتاہے۔ (۱۴) اللہجَلَّ شَانُہٗکی ہَیبت اور اُس کی بَڑائی دل میں پیدا کرتاہے، اور اللہ کے ساتھ حُضوری پیدا کرتا ہے۔ (۱۵)اللہجَلَّ شَانُہٗ کی بارگاہ میں ذکر کا سبب ہے؛ چناںچہ کلامِ پاک میں ارشادہے: ﴿فَاذْکُرُونِي أَذکُرْکُمْ﴾، اور حدیث میںوارد ہے: مَنْ ذَکَرَنِيْ فِيْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِيْ نَفْسِيْ. الحدیث. چناںچہ آیات اور احادیث کے بیان میںپہلے مُفصَّل گزر چکا ہے۔ اگر ذکر میں اِس کے سِوا اَور کوئی بھی فضیلت نہ ہوتی تب بھی شَرافت اور کَرامت کے اِعتِبار سے یہی ایک فضیلت کافی تھی، چہ جائیکہ اِس میں اَور بھی بہت سی فضیلتیں