فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
کو پہنچ جاوے، اُس میں ایسے لوگوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو سیدھے راستے کو چھوڑ کر گمراہی میں مُبتَلا ہوں، تو آیت میں مومنوں کے لیے تسلِّی ہے کہ جب تم ہدایت اور صِراطِ مُستقیم پر قائم ہوتو تم کو اِن لوگوں سے مَضَرَّت کا اندیشہ نہیں جنھوں نے بھٹک کر سیدھا راستہ چھوڑ دیا۔ نیز اصل ہدایت یہ ہے کہ: انسان شریعتِ محمدیہ ﷺکومع تمام اَحکام کے قبول کرے، اور مِن جُملہ احکامِ خداوندی کے ایک اَمر بِالمَعروف اورنَہِی عَنِ المُنکَر بھی ہے۔ ہمارے اِس قول کی تائید حضرت ابوبکر صدِّیق صکے ارشاد سے ہوتی ہے: عَنْ أبِي بَکْرِ الصِّدِّیْقِ قَالَ: أیُّهَا النَّاسُ! إنَّکُمْ تَقْرَءُ وْنَ هٰذِہِ الاٰیَۃَ: ﴿یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ، لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إذَا اهْتَدَیْتُمْ﴾ فَإنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إنَّ النَّاسَ إذَا رَأَؤُ الْمُنْکَرَ فَلَمْ یُغَیِّرُوْہٗ أَوْشَكَ أنْ یَّعُمَّهُمُ اللہُ بِعِقَابِہٖ. تغیُّر: تبدیلی۔ ناصِح: نصیحت کرنے والے۔ عِتاب: سزا۔ سَرزَنِش: ملامَت۔ زعمِ خود: اپنے گمان میں۔ بُعد: دُوری۔ اِنحطاط: گِرنا۔ جَدّ وجَہَد: کوشش۔ عَبَث: فضول۔ شُعاعَیں: کِرنیں۔ ماند: ہلکی۔ سَبِیل: راستہ۔ اِستِقلال: مضبوطی۔ مَبنی: بنیاد رکھا ہوا۔ پَیرو: اِتباع کرنے والے۔ یکسَر: بالکل۔ نُمایاں: واضح۔ ترجَمہ:حضرت ابوبکر صدیقص نے فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت: ﴿یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ، لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إذَا اهْتَدَیْتُمْ﴾ پیش کرتے ہو، اورمَیں نے رسولُ اللہﷺکو ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’جب لوگ خلافِ شرع کسی چیز کو دیکھیں اور اُس میں تغیُّر نہ کریں، تو قریب ہے کہ حق تعالیٰ اُن لوگوں کو اپنے عمومی عذاب میں مُبتَلا فرمادے‘‘۔ عُلَمائے مُحقِّقِین نے بھی آیت کے یہی معنیٰ لیے ہیں: امام نَووِیؒ شرحِ مُسلِم میں فرماتے ہیں: ’’عُلمائے مُحقِّقِین کا صحیح مذہب اِس آیت کے معنیٰ میں یہ ہے کہ، جب تم اُس چیز کو ادا کردو جس کا تمھیں حکم دیا گیا ہے تو تمھارے غیر کی کوتاہی تمھیں مَضرَّت نہ پہنچائے گی، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْریٰ﴾، اور جب ایسا ہے تو مِن جُملہ اُن اَشیاء کے جن کا حکم دیا گیا اَمر بِالمَعروف ونَہِی عَنِ المُنکَر ہے، پس جب کسی شخص نے اِس حکم کو پورا کردیا اور مُخاطَب نے اُس کی تعمیل نہ کی، تو اب ناصِح پر کوئی عِتاب اور سَرزَنِش نہیں؛ اِس لیے کہ جو کچھ اِس کے ذِمے واجب تھا -اور وہ اَمر ونَہِی ہے- اِس نے اُس کو ادا کردیا، دوسرے کاقبول کرنا اِس کے ذمے نہیں‘‘۔ وَاللہُ أعلَمُ. تیسری وجہ یہ ہے کہ، عَوام وخَواص، عالِم وجاہل؛ ہر شخص اصلاح سے مایوس ہوگیا، اور اُنھیں یقین ہوگیا کہ اب مسلمانوں کی ترقی اور اُن کا عُروج ناممکن اور دُشوار ہے، جب کسی شخص کے سامنے کوئی اِصلاحی نظام پیش کیاجاتا ہے تو جواب یہی ملتا ہے کہ: مسلمانوں کی ترقی اب کیسے ہوسکتی ہے؟