فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
مشائخ نے لکھا ہے کہ: شبِ قدر میں ہرچیز سجدہ کرتی ہے، حتیٰ کہ درخت زمین پرگرجاتے ہیں اورپھر اپنی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسی چیزوں کا تعلُّق اُمورِ کَشفِیَّہ سے ہے جو ہر شخص کومحسوس نہیں ہوتے۔ (۷) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللہِ! أَرَأَیْتَ إنْ عَلِمْتُ أَيَّ لَیْلَۃٍ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ مَاأَقُوْلُ فِیْهَا؟ قَالَ: قُوْلِيْ: ’’اَللّٰهُمَّ إنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ‘‘. (رواہ أحمد وابن ماجہ والترمذي وصححہ، کذا في المشکوۃ) ترجَمہ: حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَا نے حضورﷺ سے پوچھا کہ: یارسولَ اللہ! اگر مجھے شبِ قدر کا پتہ چل جاوے توکیا دعا مانگوں؟ حضورﷺ نے اَللّٰہُمَّ سے اخیر تک دُعابتلائی، جس کاترجَمہ یہ ہے کہ: اے اللہ! تُو بے شک مُعاف کرنے والا ہے، اور پسند کرتا ہے مُعاف کرنے کو، پس مُعاف فرمادے مجھ سے بھی۔ مَن نگویَم کہ طاعَتَم بِپَذِیر ء قلمِ عَفو بَر گُناہَم کَش: (اے اللہ!) مَیں یہ نہیں کہتا کہ: تُو میری عبادت قبول کر،(بلکہ یہ کہتا ہوں:)مُعافی کا قلم میرے گناہوں پر پھیر دے۔ سابِقہ: اگلی۔ فائدہ:نہایت جامع دُعا ہے، کہ حق تعالیٰ اپنے لُطف وکرم سے آخرت کے مُطالبے سے مُعاف فرمادیں تو اِس سے بڑھ کر اَور کیا چاہیے؟: مَن نگویَم کہ طاعَتَم بِپَذِیر ء قلمِ عَفو بَر گُناہَم کَش حضرت سفیان ثَورِیؒ کہتے ہیں کہ: اِس رات میں دعا کے ساتھ مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت دوسری عبادات کے۔ ابنِ رَجبؒ کہتے ہیں کہ: صرف دعا نہیں، بلکہ مختلف عبادات میں جمع کرنا افضل ہے، مثلاً: تلاوت، نماز، دعا اور مُراقَبہ وغیرہ؛ اِس لیے کہ نبیٔ کریم ﷺ سے یہ سب اُمور مَنقُول ہیں، یہی قول زیادہ اَقرب ہے، کہ سابِقہ اَحادیث میں نماز، ذکر وغیرہ کئی چیزوں کی فضیلت گزر چکی ہیں۔ فصل ثالث اِعتکاف کے بیان میں خُدّام: خدمت کرنے والے۔ مُعتکِف: اِعتکاف کرنے والا۔ دَر: دروازہ۔ پسیجتا: مہربانی کرنا۔ مَرحَمت: عنایت۔ مُنقَطِع: بے تعلُّق۔ تَا ٔمُّل: شک۔ قاصِر: عاجز۔ قَفَس:قفس: پنجرہ، مراد بدن ہے۔وَابَستہ: متعلِّق۔ مُونِس: ہمدرد۔ حَدِّ اِحصَا: شمار کی حد۔ خارِج: باہر۔مافِیہا: جوکچھ دنیا میں ہے۔ یکسو: الگ۔ سر زَیرِ بارِ مِنَّتِ دَرباں کیے ہوئے: سر دربان کے احسان کے بوجھ کے نیچے کیے ہوئے۔ یعنی دروازے پر ہی پڑا رہوں چاہے دربان کا احسان مند ہونا پڑے۔ رَسائی: پہنچ۔ سَہَل: آسان۔ اِعتکاف کہتے ہیں مسجد میں اِعتکاف کی نیت کرکے ٹھہرنے کو۔ حَنفِیَّہ کے نزدیک اِس کی تین قسمیں ہیں: ایک واجب، جو مَنَّت اور نَذَر کی وجہ سے ہو، جیسے یہ کہے کہ: ’’اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو اِتنے دِنوں کااِعتکاف کروںگا‘‘، یا