فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
سے یہ سمجھا کہ کوئی (مال) عطا فرمائیں گے، (جب مَیں حاضر ہوا)تو فرمایا کہ: جب دوپہر کو آفتاب ڈھل چکے تو چار رکعت نماز پڑھو، اُسی طریقے سے بتایا جو پہلی حدیث میں گزرا ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ: اگر تم ساری دنیا کے لوگوں سے زیادہ گنہ گار ہوںگے توتمھارے گناہ مُعاف ہوجائیںگے، مَیں نے عرض کیا کہ: اگر اُس وقت میں کسی وجہ سے نہ پڑھ سکوں تو؟ ارشاد فرمایا کہ: جس وقت ہوسکے: دن میں یا رات میں، پڑھ لیا کرو۔ (۳) عَن نَافِعٍ عَن ابنِ عُمَرَ قَالَ: وَجَّہَ رَسُولُ اللہِﷺ جَعفَرَ بنِ أَبِي طَالِبٍ إِلیٰ بِلَادِ الحَبشَۃِ، فَلَمَّا قَدِمَ اِعتَنَقَہٗ وَقَبَّلَہٗ بَینَ عَینَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَهَبُ لَكَ؟ أَلَا أُبَشِّرُكَ؟ أَلَا أَمنَحُكَ؟ أَلَا أَتْحَفُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللہِ! قَالَ: تُصَلِّيَ أَربَعَ رَکْعَاتٍ، فَذَکَرَ نَحوَہٗ. (أخرجہ الحاکم، وقال: إسناد صحیح لا غبارعلیہ، وتعقبہ الذهبي بأن أحمد بن داود کذبہ الدار قطني، کذا في المنهل، وکذا قال غیرہ تبعا للحافظ؛ لکن في النسخۃ التي بأیدینا من المستدرك، وقد صحت الروایۃ عن ابن عمر أن رسول اللہﷺ علَّم ابن عمہ جعفراً، ثم ذکر الحدیث بسندہ، وقال في اٰخرہ:’’هذا إسناد صحیح لاغبار علیہ‘‘، وهکذا قال الذهبي في أول الحدیث واٰخرہ. ثم لایذهب علیك أن في هذا الحدیث زیادۃ:لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ العَلِيِّ العَظِیمِ أیضاً علی الکلمات الأربع. ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺنے اپنے چچازاد بھائی حضرت جعفرص کوحبشہ بھیج دیا تھا، جب وہ وہاں سے واپس مدینۂ طیبہ پہنچے تو حضورﷺ نے اُن کو گلے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا، پھر فرمایا: مَیں تجھے ایک چیز دوں؟ ایک خوش خبری سناؤں؟ ایک بخشش کروں؟ ایک تحفہ دوں؟ اُنھوں نے عرض کیا: ضرور، حضورﷺنے فرمایا: چار رکعت نماز پڑھ، پھر اُسی طریقے سے بتائی جو اوپر گذرا۔ اِس حدیث میں اُن چار کلموں کے ساتھ لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ العَلِيِّ العَظِیمِ بھی آیا ہے۔ (۴)وَعَنِ العَبَّاسِ بنِ عَبدِالمُطِّلِبِ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللہِﷺ: أَلَاأَهَبُ لَكَ؟ أَلَاأُعطِیكَ؟ أَلَاأَمنَحُكَ؟ فَظَنَنتُ أَنَّہٗ یُعطِینِي مِنَ الدُّنیَا شَیئًا لَم یُعطِہٖ أَحَداً مِن قَبلِيْ، قَالَ: أَربَعَ رَکَعَاتٍ، فذکر الحدیث؛ وفي اٰخرہ: غَیرَأَنَّكَ إِذَا جَلَستَ لِلتَّشَهُّدِ قُلتَ ذٰلِكَ عَشرَ مَرَّاتٍ قَبلَ التَّشَهُّدِ، الحدیث. (أخرجہ الدار قطني في الأفراد، وأبونعیم في القربان، وابن شاهین في الترغیب؛ کذا في اتحاف السادۃ شرح الإحیاء) ترجَمہ: حضرت عباس ص فرماتے ہیں: مجھ سے حضورﷺنے فرمایا کہ: مَیں تمھیں بخشش کروں؟ ایک عَطِیَّہ دوں؟ ایک چیزعطا کروں؟ وہ کہتے ہیں: مَیں یہ سمجھا کہ کوئی دنیا کی ایسی چیز دینے کا اِرادہ ہے جو کسی کو نہیں دی، (اِسی وجہ سے اِس قِسم کے الفاظ: بخشش، عطا، وغیرہ کو بار بار فرماتے ہیں)، پھر آپ نے چار رکعت نماز سکھائی جو اوپر گزری، اِس میں یہ بھی فرمایا کہ: جب اَلتَّحِیَّات کے لیے بیٹھو تو پہلے اِن تسبیحوں کو پڑھو پھر التحیات پڑھنا۔ (۵) قال الترمذي: وقد روی ابن المبارك وغیر واحد من أهل العلم صلاۃ التسبیح وذکروا الفضل فیہ، حدثنا أحمد بن عبدۃ نا أبو وهب سَأَلْتُ عَبدَاللہِ بنِ المُبَارَكِ عَنِ الصَّلَاۃِ الَّتِيْ یُسَبَّحُ فِیهَا، قَالَ: یُکَبِّرُ، ثُمَّ یَقُولُ:سُبحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمدِكَ وَتَبَارَكَ اسمُكَ وَتَعَالیٰ جَدُّكَ وَلَاإِلٰہَ غَیرُكَ، ثُمَّ یَقُولُ خَمسَ عَشَرَۃَ مَرَّۃً سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ، ثُمَّ یَتَعَوَّذُ وَیَقرَأُ بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ، وَفَاتِحَۃَ الکِتَابِ وَسُورۃً، ثُمَّ یَقُولُ عَشْرَ مَرَّاتٍ سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ، ثُمَّ یَرکَعُ فَیَقُولُهَا عَشْراً، ثُمَّ یَرفَعُ رَأْسَہٗ فَیَقُولُهَا عَشْراً، ثُمَّ