فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
نے ’’کَشفُ الغُمَّۃ‘‘ میں نبیٔ کریم ﷺ کاارشاد نقل کیا ہے کہ: جو شخص عشرۂ رمَضان کا اِعتکاف کرے اُس کو دو حج اور دو عُمروں کا اجر ہے، اور جو شخص مسجدِ جماعت میں مغرب سے عشاء تک اِعتکاف کرے کہ نماز، قرآن کے عِلاوہ کسی سے بات نہ کرے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے لیے جنت میں ایک محل بناتے ہیں۔ دوسرا مضمون جو اِس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ مسلمانوں کی حاجت رَوائی، کہ دَس برس کے اِعتکاف سے افضل ارشاد فرمایا ہے، اِسی وجہ سے ابن عباسصنے اپنے اِعتکاف کی پرواہ نہیں فرمائی کہ اِس کی تَلافِی پھربھی ہوسکتی ہے، اور اِس کی قضا ممکن ہے۔ اِسی وجہ سے صوفیاء کا مَقُولہ ہے کہ: ’’اللہ جَلَّ شَانُہٗکے یہاں ٹوٹے ہوئے دِل کی جتنی قدر ہے اُتنی کسی چیز کی نہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم کی بد دُعا سے احادیث میں بہت ڈرایا گیا ہے، حضور ﷺ جب کسی شخص کو حاکم بناکر بھیجتے تھے اَور نصائح کے ساتھ ’’وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ‘‘ بھی ارشاد فرماتے تھے، کہ: مظلوم کی بددعا سے بچیو: بِتَرس اَز آہِ مَظلُوماں کہ ہَنگامِ دُعا کَردَن ء اِجابت اَز دَرِ حَق بہرِاِستِقبال مِی آید اِس جگہ ایک مسئلے کا خَیال رکھنا ضروری ہے کہ، کسی مسلمان کی حاجت رَوائی کے لیے بھی مسجد سے نکلنے سے اِعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اور اگر اِعتکاف واجب ہو تو اُس کی قضاء واجب ہوتی ہے، نبیٔ کریم ﷺ ضرورتِ بَشَری کے عِلاوہ کسی ضرورت سے بھی مسجد سے باہر تشریف نہیں لاتے تھے۔ حضرت ابن عباسص کا یہ اِیثار کہ دوسرے کی وجہ سے اپنا اِعتکاف توڑ دیا، ایسے ہی لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ دوسروں کی خاطر خود پیاسے تڑپ تڑپ کر مر جاویں؛ مگر پانی کا آخری قطرہ اِس لیے نہ پئیں کہ دوسرا زخمی جو پاس لَیٹا ہوا ہے وہ اپنے سے مُقدَّم ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس صکا یہ اِعتکاف نفلی اِعتکاف ہو، اِس صورت میں کوئی اِشکال نہیں۔ خاتمے میں ایک طویل حدیث -جس میں کئی نوع کے فضائل ارشاد فرمائے ہیں- ذکر کرکے اِس رسالے کوختم کیاجاتاہے: (۴)عَنْ ابنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إنَّ الْجَنَّۃَ لَتُبْخَرُ وَتُزَیَّنُ مِنَ الْحَوْلِ إلَی الْحَوْلِ لِدُخُوْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَإذَا کَانَتْ أَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ هَبَّتْ رِیْحٌ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ، یُقَالُ لَهَا ’’الْمَثِیْرَۃُ‘‘، فَتُصَفِّقُ وَرَقَاتُ أَشْجَارِ الْجِنَانِ وَحَلَقَ الْمَصَارِیْعِ، فَیُسْمَعُ لِذٰلِكَ طَنِیْنٌ لَمْ یَسْمَعِ السَّامِعُوْنَ أَحْسَنَ مِنْہُ، فَتَبْرُزُ الْحُوْرُ الْعِیْنُ حَتّٰی یَقِفْنَ بَیْنَ شُرَفِ الْجَنَّۃِ، فَیُنَادِیْنَ: هَلْ مِنْ خَاطِبٍ إِلَی اللہِ فَیُزَوِّجُہٗ؟ ثُمَّ یَقُلْنَ الْحُوْرُ الْعِیْنُ: یَا رِضْوَانَ الْجَنَّۃِ! مَا هٰذِہِ اللَّیْلَۃُ؟