فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کے جمع کرنے پر حریص ہو اور ذخائرِ اعمال کے ثمرات حاصل کرنا چاہتاہو‘‘۔ علامہ سخاویؒ نے باب کے شروع میں یہ اجمالی مضمون ذکر کرنے کے بعد پھر اِن مضامین کی روایات کو تفصیل سے ذکر کیا، جن میں سے بعض فصل اوَّل میں گذرچکی ہیں، اور بعض فصل ثانی میں آرہی ہیں، اوراِن روایات کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ: اِن احادیث میں اِس عبادت کی شرافت پر بَیِّن دلیل ہے کہ، اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا درود، درود پڑھنے والے پر المُضاعَف (یعنی دس گُنا) ہوتاہے، اوراُس کی نیکیوں میں اِضافہ ہوتاہے، گناہوں کا کفَّارہ ہوتاہے، درجات بلندہوتے ہیں۔ پس جتنا بھی ہوسکتاہو سیِّدُالسَّادات اور مَعدَن السَّعادات پر درود کی کثرت کیاکر؛ اِس لیے کہ وہ وسیلہ ہے مَسرَّات کے حصول کا، اور ذریعہ ہے بہترین عطاؤں کا، اور ذریعہ ہے مَضرَّات سے حفاظت کا، اور تیرے لیے ہراُس درود کے بدلے میں جو تُوپڑھے دس درود ہیں جَبَّارُ الأَرْضِیْنَ وَالسَّمٰوٰتِ کی طرف سے، اور درود ہے اُس کے ملائکۂ کرام کی طرف سے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک اَور جگہ اَفلیشی کا یہ قول نقل کرتے ہیںکہ: کونسا وسیلہ زیادہ شفاعت والا ہوسکتاہے اور کونسا عمل زیادہ نفع والا ہوسکتاہے اُس ذات اقدس ﷺ پر درود کے مقابلے میں؟جس پر اللہ جَلَّ شَانُہٗ درود بھیجتے ہیں، اور اُس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں، اور اللہجَلَّ شَانُہٗنے اُس کو دنیا اور آخرت میں اپنی قُربت کے ساتھ مخصوص فرمایاہے۔ یہ بہت بڑا نور ہے، اور ایسی تجارت ہے جس میں گھاٹا نہیں، یہ اولیائے کرام کا صبح وشام کا مستقل معمول رہاہے۔ پس جہاںتک ہوسکے درود شریف پر جَمارہاکر، اِس سے اپنی گمراہی سے نکل آئے گا، اور تیرے اعمال صاف سُتھرے ہوجائیںگے، تیری اُمیدیں برآئیںگی تیرا قلب مُنوَّر ہوجائے گا، اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ کی رَضا حاصل ہوگی، قِیامت کے سخت ترین دَہشت ناک دن میں اَمن نصیب ہوگا۔ دوسری فصل خاص خاص درود کے خاص خاص فضائل کے بیان میں (۱) عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِيْ لَیْلیٰ قَالَ: لَقِیَنِيْ کَعْبُ بْنُ عُجْرَۃَ فَقَالَ: أَلَا اُھْدِيْ لَكَ هَدِیَّۃً سَمِعْتُھَا مِنَ النَّبِيِّﷺ؟ فَقُلْتُ: بَلیٰ! فَاَہْدِھَا لِيْ، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ، فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللہِ! کَیْفَ الصَّلَاۃُعَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ؟فَإِنَّ اللہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ عَلَیْكَ، قَالَ: ’’قُوْلُوْا: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ إِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ إِبْرَاہِیْمَ، إِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ. اَللّٰہُمَّ بَارِكْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ إِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ إِبْرَاہِیْمَ، إِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘. (رواہ البخاري، وبسط السَّخاوي في تخریجہ واختلاف الفاطہ، وقال: هٰکذا لفظ البخاري: ’’عَلیٰ إِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ إِبْرَاہِیْمَ‘‘ في الموضعین)