فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تمہید بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِالْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخَرِیْنَ خَاتِمِ الْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَأَصْحَابِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ. ضَلالَت: گمراہی۔سَفاہَت: بے وُقوفی۔ بَطحا: مکۂ مُعظَّمہ۔سَنگ لاخ: پتھرِیلی۔ رُشد: رہنمائی۔ماہتاب: چاند۔ نُمودار: ظاہر۔ معراجِ ترقِّی: ترقی کی سیڑھیوں۔ نَظِیر: مثال۔قاصِر: عاجز۔ صَلاح: درستگی۔فَلاح: کامیابی۔ مُشعِل: موٹی بتّی۔ شاہراہِ ترقی: ترقی کا راستہ۔ گام زَن: چلنے والا۔پاش پاش: ٹکڑے ٹکڑے۔ پارِینہ: پُرانی۔ کارآمد: کام آنے والا۔ سابِقہ: اَگلی۔ بدنُما: بُرا۔ حَشمَت: شان وشوکت۔ اِجارَہ دار: مالک۔ خَواری: رُسوائی۔ اِفلاس: غریبی۔ زر: سونے۔ باہمی اُخوَّت: بھائی بندی۔اُلفت: محبت۔ کِردار: کام۔ کوسُوں: بہت ۔اَغیار: غیر مُسلِم۔ زَبُوں حالی: بُرے حال۔ بَرمَلا: کھُلَّم کھُلا۔ مَضحَکہ: مذاق۔جگر گوشے: عزیز۔ دِل دادہ: عاشق۔ مُقدَّس: پاکیزہ۔ گَردانتے: شمار کرتے۔ تِشنہ: پیاسی۔ تَمدُّن: مل کے رہنے کا طریقہ۔ غیر مُتمَدِّن: تمیز نہ رکھنے والی۔ حالتِ زار: کمزور حالت۔ جِدّوجَہد: کوشش۔ آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل -جب دُنیا کُفروضَلالَت، جَہالَت وسَفاہَت کی تاریکیوں میں گھِری ہوئی تھی- بَطحا کی سَنگ لاخ پہاڑیوں سے رُشد وہدایت کا ماہتاب نُمودار ہوا، اورمشرق ومغرب، شِمال وجنوب؛ غرض دنیا کے ہر ہر گوشے کو اپنے نورسے مُنوَّرکیا، اور ۲۳؍ سال کے قلیل عرصے میں بنی نوعِ انسان کو اُس معراجِ ترقِّی پر پہنچایا کہ تاریخِ عالَم اِس کی نَظِیر پیش کرنے سے قاصِر ہے، اوررُشد وہدایت، صَلاح وفَلاح کی وہ مُشعِل مسلمانوںکے ہاتھ میں دی جس کی روشنی میں ہمیشہ شاہراہِ ترقی پر گام زَن رہے، اور صدیوں اِس شان وشوکت سے دنیا پر حکومت کی کہ ہر مُخالِف قوّت کو ٹکراکر پاش پاش ہونا پڑا۔ یہ ایک حقیقت ہے جو ناقابلِ انکارہے؛ لیکن پھر بھی ایک پارِینہ داستان ہے جس کا بار بار دوہرانا نہ تسلِّی بخش ہے اور نہ کارآمد اور مُفِید، جب کے موجودہ مُشاہَدات اور واقعات خود ہماری سابِقہ زندگی اور ہمارے اَسلاف کے کارناموںپر بدنُما داغ لگا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی تیرہ سوسالہ زندگی کو جب تاریخ کے اَوراق میں دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ، ہم عزّت وعَظمت، شان وشوکت، دبدبہ وحَشمَت کے تنہا مالک اور اِجارَہ دار ہیں؛ لیکن جب اُن اَوراق سے نظر ہٹاکر موجودہ حالات کا مُشاہَدہ کیا جاتا ہے تو ہم اِنتہائی ذلّت وخَواری، اِفلاس وناداری میں مُبتلا نظر آتے ہیں؛ نہ زوروقوّت ہے نہ زر ودَولت ہے،نہ شان وشوکت ہے نہ باہمی اُخوَّت واُلفت،نہ عادات اچھی نہ اخلاق اچھے، نہ اعمال اچھے نہ کِردار اچھے،ہر بُرائی ہم میں موجوداور ہربھلائی سے کوسُوں دور؛اَغیارہماری اِس زَبُوں حالی پر خوش ہیں، اور بَرمَلا ہماری کمزوری کو اُچھالا جاتا ہے، اور ہمارا مَضحَکہ اُڑایا جاتا ہے، اِسی پر بس نہیں؛ بلکہ خود ہمارے جگر گوشے، نئی تہذیب کے دِل دادہ نوجوان اِسلام کے مُقدَّس اُصولوں کا مذاق اُڑاتے ہیں،بات بات پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں، اور اِس شریعتِ مُقدَّسہ کو ناقابلِ عمل، لَغو اور بیکار گَردانتے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ جس قوم نے دنیا کو سیراب کیا وہ آج کیوں تِشنہ ہے! جس قوم