فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فروخت نہ ہوئی، اُس کو فکر اور رنج ہوا، عبداللہ بن جعفرص نے اپنے کارِندوں سے کہا کہ: ساری شَکر اِس سے خرید لو، اورلوگوں میں مُفت لُٹا دو۔ رات کو قبیلے میں جو مہمان آجاتا تھا وہ اُن کے یہاں سے کھانا، پینا، ہرقِسم کی ضروریات پوری کرتا۔ (اِصابہ، ۴؍ ۳۸) دِقَّت: پریشانی۔ حضرت زبیرص ایک لڑائی میں شریک تھے، ایک دن اپنے بیٹے عبداللہ ص کووَصیت فرمائی کہ: میرا خیال یہ ہے کہ آج مَیں شہید ہوجاؤں گا، تم میراقرضہ اداکردینا اورفلاں فلاں کام کرنا، یہ وصیتیں کرکے اُسی دن شہیدہوگئے، صاحبزادے نے جب قرضے کوجوڑا تو بائیس لاکھ درہم تھے، اوریہ قرضہ بھی اِس طرح ہوا تھا کہ اَمانت دار بہت مشہورتھے، لوگ اپنی اپنی اَمانتیں بہت کثرت سے رکھتے، یہ فرمادیتے کہ: رکھنے کی جگہ تومیرے پاس نہیں، یہ رقم قرض ہے، جب تمھیں ضرورت ہولے لینا، یہ کہہ کر اُس کوصدقہ کردیتے۔ اوریہ بھی وصیت کی کہ: جب کوئی مشکل پیش آئے تومیرے مولیٰ سے کہہ دینا۔ عبداللہص کہتے ہیں کہ: مَیں مولیٰ کونہ سمجھا، مَیں نے پوچھا کہ: آپ کے مولیٰ کون؟ فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ، چناںچہ حضرت عبداللہص نے تمام قرضہ اداکیا۔ کہتے ہیں کہ: جب کوئی دِقَّت پیش آتی، مَیں کہتا کہ: ’’اے زبیرکے مولیٰ! فلاں کام نہیں ہوتا‘‘، وہ فوراً ہوجاتا۔ یہ عبداللہ بن زبیرص کہتے ہیں کہ: مَیں نے ایک مرتبہ اِن عبداللہ بن جعفرص سے کہا کہ: میرے والد کے قرضے کی فہرست میں تمھارے ذمَّے دس لاکھ درہم لکھے ہیں، کہنے لگے کہ: جب چاہو لے لو، اِس کے بعد معلوم ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، مَیں دوبارہ گیا، مَیں نے کہا کہ: وہ تو تمھارے اُن کے ذمَّے ہیں، کہنے لگے کہ: مَیں نے مُعاف کردیے، مَیں نے کہاکہ: مَیں مُعاف نہیں کراتا، کہنے لگے کہ: جب تمھیں سہولت ہو دے دینا، مَیں نے کہا: اِس کے بدلے میں زمین لے لو، غنیمت کے مال میں زمین بہت سی آئی ہوئی تھی، عبداللہ بن جعفر ص نے کہا: اچھا، مَیں نے ایک زمین اُن کو دے دی جومعمولی حیثیت کی تھی، پانی وغیرہ بھی اُس میں نہیںتھا، اُنھوں نے فوراً قبول کرلی، اورغلام سے کہا کہ: اِس زمین میں مُصلّٰی بچھادے، اُس نے مُصلیٰ بچھادیا، دورکعت نمازوہاں پڑھی اور بہت دیر تک سجدے میں پڑے رہے، نمازسے فارغ ہوکر غلام سے کہا کہ: اِس جگہ کوکھودو، اُس نے کھودناشروع کیا، ایک پانی کاچشمہ وہاں سے اُبلنے لگا۔ (اُسدُ الغابۃ، ۳؍ ۱۳۴) فائدہ: اِن حضراتِ صحابۂ کرام ث کے یہاں یہ اوراِس قِسم کی چیزیں -جواِس باب میں لکھی گئیں- کوئی بڑی بات نہ تھی، اِن حضرات کی عام عادتیں ایسی ہی تھیں۔