فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
سردارِ دو عالَم ﷺ اور ہمارے آقا ومَولیٰ نے اِن مَصائب اورمَشقَّتوںکوتحمُّل اور بُردباری کے ساتھ برداشت کیا، تو ہم بھی اُن کے پَیرو ہیں اور اُن ہی کا کام لے کرکھڑے ہوئے ہیں، ہمیں بھی اِن مَصائب سے پریشان نہ ہوناچاہیے، اور تحمُّل اور بُردباری کے ساتھ اُن کو برداشت کرنا چاہیے۔ ماسبق سے یہ بات بہ خوبی معلوم ہوگئی ہے کہ، ہمارا اصل مرض روحِ اسلامی اور حقیقتِ ایمانی کا ضُعف اور اِضمِحلال ہے، ہمارے اسلامی جذبات فنا ہوچکے اورہماری ایمانی قوَّت زائل ہوچکی، اور جب اصل شیٔ میں اِنحطاط آگیا تو اُس کے ساتھ جتنی خوبیاں اوربھلائیاں وَابَستہ تھیں اُن کا اِنحطاط پذیر ہونا بھی لابُدِّی اور ضروری تھا، اور اِس ضُعف واِنحطاط کاسبب اُس اصل شیٔ کا چھوڑ دینا ہے جس پر تمام دین کابقا اور دَارومَدار ہے، اور وہ ہے: اَمر بِالمَعروف اور نَہِی عَنِ المُنکَر۔ ظاہر ہے کہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ اُس کے اَفراد خوبیوں اورکمالات سے آراستہ نہ ہوں۔پس ہمارا علاج صرف یہ ہے کہ، ہم فریضۂ تبلیغ کو ایسی طرح لے کر کھڑے ہوں جس سے ہم میں قوَّتِ ایمانی بڑھے اور اِسلامی جذبات اُبھریں، ہم خدا اور رسول کو پہچانیں اوراحکامِ خداوندی کے سامنے سَرنِگوںہوں، اور اِس کے لیے ہمیں وہی طریقہ اختیار کرناہوگا جو سَیِّدُ الأَنبِیَاءِ وَالْمُرسَلِین ﷺنے مشرکینِ عرب کی اِصلاح کے لیے اختیار فرمایا، ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ ترجَمہ:بے شک تمھارے لیے رسول اللہﷺ میں اچھی پیروی ہے۔ اِسی کی جانب امام مالکؒ اشارہ فرماتے ہیں: لَنْ یُّصْلِحَ اٰخِرُ هٰذِہِ الأُمَّۃِ إلَّا مَا أَصَلَحَ أَوَّلُهَا. یعنی: اِس اُمَّتِ محمدیہ ﷺ کے آخر میں آنے والے لوگوں کی ہرگز اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہی طریقہ اختیار نہ کیاجائے جس نے ابتدا میں اِصلاح کی ہے۔ خودسَری: ضد۔خود رائی: تکبُّر۔ مُتنَفِّر: نفرت کرنے والا۔ مطمحِ نظر: اصلی مقصد۔ اَغیار: غیرمسلم۔ پَیرو: اتباع کرنے والا۔ جس وقت نبیٔ کریم ﷺ دعوتِ حق لے کر کھڑے ہوئے آپ ﷺ تنہا تھے، کوئی آپ ﷺکا ساتھ اور ہم خیال نہ تھا، دُنیوی کوئی طاقت آپ کو حاصل نہ تھی، آپ ﷺ کی قوم میں خودسَری اورخود رائی اِنتِہا درجے کو پہنچی ہوئی تھی، اُن میں سے کوئی حق بات سننے اور اِطاعت کرنے پر آمادہ نہ تھا، بِالخُصوص جس کلمۂ حق کی آپ تبلیغ کرنے کھڑے ہوئے تھے اُس سے تمام کے قلوب مُتنَفِّر اور بیزار تھے؛ اِن حالات میں کونسی طاقت تھی جس سے ایک مُفلِس ونادار، بے یار ومددگار انسان نے تمام قوم کو اپنی طرف کھینچا؟۔ اب غور کیجیے کہ، آخر وہ کیاچیز تھی جس کی طرف آپ نے مخلوق کوبلایا؟ اور جس شخص نے اُس چیز کو پالیا وہ پھر ہمیشہ کے لیے آپ کا ہورہا؟