فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
جب کہ اُن کے پاس نہ سَلطَنت وحُکومت ہے نہ مال وزَر، اور نہ سامانِ حَرب اور نہ مرکزی حیثیت، نہ قُوَّتِ بازُو اور نہ باہمی اتِّفاق واتِّحاد؛ بالخصوص دِین دار طبقہ تو بہ زعمِ خود یہ طے کر چکا ہے کہ، اب چودھویں صدی ہے، زمانۂ رسالت کو بُعد ہوچکا، اب اسلام اور مسلمانوں کا اِنحطاط ایک لازمی شیٔ ہے، پس اُس کے جَدّ وجَہَد کرنا عَبَث اور بے کار ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جس قدر مِشکوٰۃِ نُبوَّت سے بُعد ہوتا جائے گا حقیقی اِسلام کی شُعاعَیں ماند پڑتی جائیںگی؛ لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بَقائے شریعت اور حِفاظتِ دینِ محمدی کے لیے جِدَّوجَہَد اور سَعِی نہ کی جائے؛ اِس لیے کہ اگر ایسا ہوتا اور ہمارے اَسلاف بھی خدا نہ خواستہ یہی سمجھ لیتے تو آج ہم تک اِس دین کے پہنچنے کی کوئی سَبِیل نہ تھی؛ البتہ جب کہ زمانہ نا موافق ہے تو رفتارِ زمانہ کو دیکھتے ہوئے زیادہ ہمَّت اور اِستِقلال کے ساتھ اِس کام کو لے کرکھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ تعجب ہے! کہ جو مذہب سراسر عمل اور جُہد پر مَبنی تھا آج اُس کے پَیرو عمل سے یکسَرخالی ہیں؛ حالاںکہ قرآن مجید اورحدیث شریف میں جگہ جگہ عمل اور جُہد کا سبق پڑھایا اوربتلایا ہے، کہ ایک عبادت گزار تمام رات نفل پڑھنے والا، دن بھر روزہ رکھنے والا، اللہ اللہ کرنے والا ہرگز اُس شخص کی برابر نہیں ہوسکتا جو دوسروں کی اِصلاح اور ہدایت کی فکر میں بے چین ہو۔ قرآنِ کریم نے جگہ جگہ جہاد فی سبیلِ اللہ کی تاکید کی، اور مُجاہِد کی فضیلت اور برتَری کو نُمایاںکیا: ﴿لَایَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرَ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللہِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، فَضَّلَ اللہُ الْمُجَاهِدِیْنَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَی القٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً، وَّکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنیٰ، وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجَاهِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً، دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَمَغْفِرَۃً وَّرَحْمَۃً، وَّکَانَ اللہُ غَفُوْراً رَّحِیْماً﴾.[النساء، ع :۱۳] ترجَمہ:برابر نہیں وہ مسلمان جو بِلا کسی عذر کے گھر میںبیٹھے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کریں، اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کا درجہ بہت زیادہ بلند کیا ہے جو اپنے مال وجان سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے، اور سب سے اللہ تعالیٰ نے اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بہ مقابلہ گھر میں بیٹھنے والوں کے بڑا اجرِ عظیم دیا ہے، یعنی: بہت سے درجے جو خدا کی طرف سے مِلیںگے، اور مغفرت اور رحمت، اور اللہ بڑی مغفرت رحمت والے ہیں۔ سینہ سِپَر ہونا: ڈَٹے رہنا۔مَقہُور: جس پر غصہ ہو۔ مَقدِرَت: طاقت۔ کَشاں کَشاں: آہستہ آہستہ۔ بَقا: باقی رہنا۔ تَحفُّظ: حفاظت۔ اَنتھک: بے اِنتہا۔سَرفَراز: کامیاب۔ کَمربَستہ: تیار۔ مَنصَب: عہدے۔ صَریح: واضح۔مامُور: حکم دیاگیا۔ پَس وپیش: آگے پیچھے۔ اِستِحکام: مضبوطی۔ اگرچہ آیت میں جہاد سے مراد کُفَّار کے مُقابلے میں سینہ سِپَر ہونا ہے؛ تاکہ اسلام کا بول بالا ہو، اور کُفروشِرک مَغلُوب ومَقہُور ہو؛ لیکن اگر بدقِسمتی سے آج ہم اِس سعادتِ عُظمیٰ سے محروم ہیں تو اِس مقصد کے لیے جس قدر جِدَّوجَہَد