فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
عمل کرانا اور مخلوقِ خدا کو اُس پر چلانا یہ دوسرے لوگوںکا کام ہے۔ اِس کی جانب اِس حدیث شریف میں تنبیہ کی گئی ہے: أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَعَیَّتِہٖ: فَالْأَمِیْر الَّذِيْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ عَلَیْهِمْ وَهُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلیٰ بَیْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِہٖ وَهِيَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ علیٰ مَالِ سَیِّدِہٖ وَهُوَمَسْئُوْلٌ عَنْہُ؛ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعَیَّتِہٖ. ترجَمہ:بے شک تم سب کے سب نِگَہبَان ہوا ور تم سب اپنے رَعِیَّت کے بارے میں سَوال کیے جاؤگے،پس بادشاہ لوگوں پر نگہبان ہے، وہ اپنی رَعیَّت کے بارے میں سَوال کیا جاوے گا، اور مرد اپنے گھروالوں پر نگہبان ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں سَوال کیا جاوے گا، اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد پرنگہبان ہے وہ اُن کے بارے میں سَوال کی جاوے گی، اور غلام اپنے مالک کے مال پر نگہبان ہے اُس سے اُس کے بارے میں سَوال کیا جاوے گا؛ پس تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی رَعِیَّت کے بارے میں سوال کیا جاوے گا۔ اور اِسی کو واضح طور پر اِس طرح بیان فرمایا ہے: ’’قَالَ: اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃُ، قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِهِمْ‘‘: بہ فرضِ مَحال: مان لینے کے طریقے پر۔مُقتَضیٰ: تقاضہ۔ اِعلائے کَلِمۃُ اللہ: اللہ کے کلمے کو بلند کرنے۔ کَمر بَستہ: تیار۔دِہ: دینے والی۔صِراطِ مُستقیم: سیدھے راستے۔ مَضَرَّت: نقصان۔ ترجَمہ:حضورِاقدس ﷺ نے فرمایا: دِین سراسرنصیحت ہے، صحابہث نے عرض کیا:کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اور اللہ کے رسول کے لیے، اور مسلمانوں کے مُقتَداؤں کے لیے، اور عام مسلمانوں کے لیے۔ اگر بہ فرضِ مَحال مان بھی لیاجائے کہ، یہ عُلَما کا کام ہے، تب بھی اِس وقت فِضائے زمانہ کامُقتَضیٰ یہی ہے کہ ہرشخص اِس کام میں لگ جائے، اور اِعلائے کَلِمۃُ اللہ اور حفاظتِ دِینِ مَتِین کے لیے کَمر بَستہ ہوجائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ، ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہم خود اپنے ایمان میں پختہ ہیں تو دوسروںکی گمراہی ہمارے لیے نقصان دِہ نہیں، جیسا کہ اِس آیتِ شریفہ کا مفہوم ہے: ﴿یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ، لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إذَا اهْتَدَیْتُمْ﴾: اے ایمان والو! اپنی فکرکرو، جب تم راہ پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اُس سے تمھارا کوئی نقصان نہیں۔ (بیانُ القرآن)؛لیکن دَرحقیقت آیت سے یہ مقصودنہیں جو ظاہر میں سمجھا جارہا ہے؛ اِس لیے کہ یہ معنیٰ حکمتِ خدا وندیہ اور تعلیماتِ شرعیہ کے بالکل خلاف ہے، شریعتِ اسلامی نے اِجتماعی زندگی اوراِجتماعی اِصلاح اور اِجتماعی ترقی کو اصل بتلایا ہے، اور اُمَّتِ مُسلِمہ کو بہ منزلۂ ایک جسم کے قرار دیا ہے، کہ اگر ایک عُضو میں دَرد ہوجائے تو تمام جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ بات دَراَصل یہ ہے کہ بنی نوعِ انسان خواہ کتنی ہی ترقی کرجائے اورکمال