فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
الْأَرْضِ﴾ [النور،ع:۷]: اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اُنھوں نے عملِ صالح کیے، کہ اُن کو ضرور رُوئے زمین کا خلیفہ بنائے گا۔ اوریہ بھی اطمینان دلایا ہے کہ،مومن ہمیشہ کُفَّار پر غالب رہیںگے، اور کافروں کا کوئی یارو مددگار نہ ہوگا: ﴿وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا﴾ [فتح،ع:۲] اور اگر تم سے یہ کافر لڑتے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگتے، پھر نہ پاتے کوئی یارو مددگار۔ اور مومنوں کی نصرت اور مدد اﷲتعالیٰ کے ذمّہ ہے، اور وہی ہمیشہ سَر بُلند اور سَرفَراز رہیں گے: ﴿وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الرُّوم،ع:۵] اور حق ہے ہم پر مدد ایمان والوں کی۔ ﴿وَلَاتَھِنُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ [آل عمران، ع:۱۴] اور تم ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو، اور غالب تم ہی رہوگے اگر تم پورے مومن رہے۔ ﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [منافقون،ع:۱] اور اﷲہی کی ہے عزت اور اُس کے رسول ﷺ کی اور مسلمانوں کی۔ وَابَستہ: متعلِّق۔ مُستحکم: مضبوط۔ خُسران: نقصان۔ فَہمَائش: سمجھانا۔اَسلاف: بزرگ۔ مُتَّصِف:صفت والے۔ نعمتِ عُظمیٰ: بڑی نعمت۔نُقوش: اَلفاظ۔ وابَستہ: متعلِّق۔ جَسَدِ بے جان: روح بغیر جسم۔عِلَّت وغایَت: وجہ اور انجام۔خَیْرُالأُمَمْ: سب اُمَّتوں سے بہتر۔مُعزَّز: عزت والا۔مَعرفَت: پہچان۔آراستہ: سجایا ہوا، تیار۔مُژدہ: خوش خبری۔ حَصر: تاکید۔ مُوجِب: سبب۔ باز نہ آتے: رُکتے نہ۔ مَزید وَضاحت: زیادہ تفصیل۔ مذکورہ بالا اِرشادات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ، مسلمانوں کی عزت، شان وشَوکت، سربلندی وسرفرازی اور ہر بَرترِی وخوبی اُن کی صفتِ ایمان کے ساتھ وَابَستہ ہے، اگر اُن کا تعلّق خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ مُستحکم ہے (جو ایمان کا مقصود ہے) تو سب کچھ اُن کا ہے، اور اگر خدا نہ خواستہ اِس رَابطہ، تعلُّق میں کمی اور کمزوری پیدا ہوگئی ہے تو پھر سراسر خُسران اور ذِلَّت وخَواری ہے، جیسا کہ واضح طور پر بتلا دیا گیا ہے: ﴿وَالْعَصْرِ، إِنَّ الإِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ [سورۂ عصر]:قَسم ہے زمانے کی، انسان بڑے خسارے میں ہے؛ مگر جولوگ ایمان لائے، اور اُنھوں نے اچھے کام کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی فَہمَائش کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو پابندی کی فَہمائش کرتے رہے۔ ہمارے اَسلاف عزت کے مُنتَہا کو پہنچے ہوئے تھے اور ہم اِنتہائی ذِلَّت وخَواری میں مبتلا ہیں؛ پس معلوم ہوا کہ وہ کمالِ ایمان سے مُتَّصِف تھے اور ہم اِس نعمتِ عُظمیٰ سے محروم ہیں، جیسا کہ مُخبِرِ صادق ﷺ نے خبر دی ہے: