فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
سَیَأْتِيْ عَلی النَّاسِ زَمَانٌ لَایَبْقیٰ مِنَ الإِسْلَا مِ إِلَّااسْمُہٗ، وَلَامِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّارَسْمُہٗ. یعنی: قریب ہی ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کاصرف نام باقی رہ جائے گا، اور قرآن کے صرف نُقوش رہ جائیں گے۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ، اگر واقعی ہم اِس حقیقی اسلام سے محروم ہوگئے جو خدا اور رسول ﷺکے یہاں مَطلُوب ہے، اور جس کے ساتھ ہماری دِین ودنیا کی فَلاح وبہبود وابَستہ ہے، توکیاذریعہ ہے جس سے وہ کھوئی ہوئی نعمت واپس آئے؟ اور وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے رُوحِ اسلام ہم میں سے نکال لی گئی، اور ہم جَسَدِ بے جان رہ گئے؟ جب مُصحفِ آسمانی کی تلاوت کی جاتی ہے اور (اُمَّت محمدیہ ﷺ) کی فضیلت اور برتری کی عِلَّت وغایَت ڈھونڈی جاتی ہے، تومعلوم ہوتا ہے کہ اِس اُمَّت کو ایک اعلیٰ اور برتر کام سپرد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ’’خَیْرُالأُمَمْ‘‘کا مُعزَّز خِطاب اِس کو عطا کیا گیا۔دنیا کی پیدائش کا مَقصدِ اصلی خدا وَحْدَہٗ لَاشَرِیْكَ لَہٗ کی ذات وصفات کی مَعرفَت ہے، اور یہ اُس وقت تک نا ممکن ہے کہ جب تک بنی نوعِ انسان کو بُرائیوں اور گندگیوں سے پاک کرکے بھلائیوں اورخوبیوں کے ساتھ آراستہ نہ کیا جائے، اِسی مقصد کے لیے ہزاروں رسول اور نبی بھیجے گئے، اور آخر میں اِس مقصد کی تکمیل کے لیے سَیِّدُ الأنبِیاءِ وَالمُرسَلِین ﷺکو مَبعُوث فرمایا، اور ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِيْ﴾ کا مُژدہ سنایا گیا؛ اب چوںکہ مقصد کی تکمیل ہو چکی تھی، ہر بھلائی اور بُرائی کو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا تھا، ایک مُکمَّل نظامِ عمل دیا جاچکا تھا؛ اِس لیے رِسالت ونُبوَّت کے سلسلے کو ختم کر دیا گیا، اور جو کام پہلے نبی اور رسول سے لیا جاتا تھا وہ قِیامت تک (اُمَّتِ محمدیہ ﷺ)کے سُپُرد کر دیا گیا۔ ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ، وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾ [آل عمران، ع:۱۱]اے اُمَّت محمدیہ! تم افضل اُمَّت ہو، تم کو لوگوں کے نفع کے لیے بھیجا گیاہے، تم بھلی باتوںکو لوگوں میںپھیلاتے ہو اور بُری باتوں سے اُن کو روکتے ہو، اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔ ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ، وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَاُولئِٓكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾:اور چاہیے کہ تم میں ایسی جماعت ہوکہ لوگوں کو خیر کی طرف بُلائے، اور بھلی باتوں کا حکم کرے اور بُری باتوں سے منع کرے، اور صرف وہی لوگ فلاح والے ہیں جو اِس کا م کو کرتے ہیں۔ پہلی آیت میں ’’خَیرِاُمَم‘‘ ہونے کی وجہ یہ بتلائی کہ، تم بھلائی کو پھیلاتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو؛ دوسری آیت میں حَصر کے ساتھ فرمادیا کہ: فَلاح وبَہبُود صرف اُن ہی لوگوں کے لیے ہے جو اِس کا م کو انجام دے رہے ہیں۔ اِسی پر بس نہیں؛ بلکہ دوسری جگہ صاف طور پر بیان کردیاگیاکہ: اِس کام