فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
یَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِماً أَبَداً ء عَلیٰ حَبِیْبِكَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِمٖ (۳۸) محمدبن سعید بن مُطرِّفؒ -جو نیک لوگوں میںسے ایک بزرگ تھے- کہتے ہیںکہ: مَیں نے اپنا یہ معمول بنارکھاتھا کہ، رات کو جب سونے کے واسطے لیٹتا تو ایک مقدار مُعیَّن درود شریف کی پڑھا کرتاتھا، ایک رات کو مَیں بالاخانے پر اپنا معمول پورا کرکے سوگیا، تو حضورِاقدس ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی، مَیں نے دیکھا کہ: حضورِاقدس ﷺ بالاخانے کے دروازہ سے اندر تشریف لائے، حضورﷺ کی تشریف آوری سے بالاخانہ سارا ایک دَم روشن ہوگیا، حضورﷺ میری طرف کو تشریف لائے اور ارشاد فرمایاکہ: ’’لا! اُس منھ کو لا جس سے تو کثرت سے مجھ پر درود پڑھتا ہے، مَیں اُس کو چُوموںگا‘‘، مجھے اِس سے شرم آئی کہ مَیں دہنِ مبارک کی طرف منھ کروں، تو مَیں نے اُدھر سے اپنے منھ کو پھیرلیا، تو حضورِاقدس ﷺ نے میرے رُخسارے پر پیار کیا، میری گھبراکر ایک دَم آنکھ کھل گئی، میری گھبراہٹ سے میری بیوی جو میرے پاس پڑی ہوئی تھی، اُس کی بھی ایک دَم آنکھ کھل گئی، تو سارا بالاخانہ مُشک کی خوشبو سے مہک رہاتھا، اور مُشک کی خوشبو میرے رُخسار میںسے آٹھ دن تک آتی رہی۔ (بدیع) یَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِماً أَبَداً ء عَلیٰ حَبِیْبِكَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِمٖ فرمائش: درخواست۔ وَرَم: سُوجن۔ معتمَد: معتبر شخص، قابلِ اعتماد۔ (۳۹) محمدبن مالکؒ کہتے ہیںکہ: مَیں بغداد گیا؛تاکہ قاری ابوبکر بن مجاہد کے پاس کچھ پڑھوں، ہم لوگوں کی ایک جماعت اُن کی خدمت میں حاضرتھی اور قراء ت ہورہی تھی، اِتنے میں ایک بڑے میاں اُن کی مجلس میں آئے، جن کے سرپر بہت ہی پُرانا عِمامہ تھا، ایک پُرانا کُرتاتھا، ایک پُرانی چادرتھی، ابوبکر اُن کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور اُن کو اپنی جگہ بٹھایا، اور اُن سے اُن کے گھر والوں کی، اہل وعَیال کی خیریت پوچھی، اُن بڑے میاں نے کہا: رات میرے ایک لڑکا پیدا ہوا، گھر والوں نے مجھ سے گھی اورشہد کی فرمائش کی۔ شیخ ابوبکر کہتے ہیںکہ: مَیںاُن کا حال سُن کر بہت ہی رنجیدہ ہوا، اور اُسی رنج وغم کی حالت میں میری آنکھ لگ گئی، تو مَیں نے خواب میں نبیٔ کریم ﷺ کی زیارت کی، حضورِاقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اِتنا رنج کیوں ہے؟ علی بن عیسیٰ وزیر کے پاس جا، اور اُس کو میری طرف سے سلام کہنا، اور یہ علامت بتانا کہ تُو ہرجمعہ