فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
علامہ قسطلانیؒ کے کلام کی شرح کرتے ہوئے حضورﷺ کے ناموں کی شرح میں کہتے ہیںکہ: ولی اور مولیٰ، یہ دونوں اللہ کے ناموںمیںسے ہیں، اور اِن دونوں کے معنیٰ مددگار کے ہیں۔ اور حضورﷺ کا ارشادہے، جیساکہ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ص سے نقل کیاہے: ’’أَنَا وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ‘‘. اور بخاری ہی میں حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیاہے کہ: کوئی مؤمن ایسا نہیں کہ مَیں اُس کے ساتھ دنیا وآخرت میں اَولیٰ نہ ہوں، پس جس نے مال چھوڑاہو وہ اُس کے وُرَثا کو دیاجائے، اور جس نے قرضہ یاضائع ہونے والی چیزیں چھوڑی ہوں وہ میرے پاس آئے، مَیں اُس کا مولیٰ ہوں۔ نیز حضورﷺ نے فرمایاہے کہ: جس کا مَیں مولیٰ ہوں، علی اُس کا مولیٰ ہے۔ امام ترمذی نے اِس کو روایت کیاہے، اور اِس کو ’’حَسَن‘‘ بتایاہے۔ انتہیٰ علامہ رازیؒ سورۂ محمدکی آیت شریفہ ﴿وَأَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَامَوْلیٰ لَہُمْ﴾ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ: اگراِشکال کیاجائے کہ آیتِ بالا اور دوسری آیت شریفہ ﴿ثُمَّ رُدُّوْٓا إِلَی اللہِ مَوْلٰہُمُ الْحَقِّ﴾ میں کس طرح جمع کیاجائے؟ تو یہ کہاجائے گا کہ: مولیٰ کے کئی معنیٰ آتے ہیں: سردار کے، رب کے، مددگار کے؛ پس جس جگہ یہ کہاگیاہے کہ: کوئی مولیٰ نہیںہے، وہاں یہ مراد ہے کہ کوئی مددگار نہیں، اور جس جگہ ﴿مَوْلٰہُمُ الْحَقِّ﴾ کہاگیاہے، وہاں اُن کا رب اورمالک مُراد ہے۔ انتہیٰ دال: دلالت کرنے والا۔ صاحب جلالین نے سورۂ اَنعام کی آیت ﴿مَوْلٰہُمُ الْحَقِّ﴾ کی تفسیر ’’مالک‘‘ کے ساتھ کی ہے۔ اِس پر صاحبِ جُمل لکھتے ہیں کہ: مالک کے ساتھ تفسیر اِس واسطے کی گئی ہے کہ، آیت شریفہ مؤمن اور کافر دونوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ اور دوسری آیت یعنی سورۂ محمدمیں ﴿أَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَامَوْلیٰ لَہُمْ…﴾ وارد ہواہے۔ اِن دونوں میں جمع اِس طرح پر ہے کہ، مولیٰ سے مُراد پہلی آیت میں مالک، خالق اور معبود ہے، اور دوسری آیت میں مددگار؛ لہٰذا کوئی تعارُض نہیں رہا۔ اِس کے عِلاوہ بہت سی وُجوہ اِس بات پر دال ہیں کہ، ’’مولانا‘‘ جب کہ رب اور مالک کے معنیٰ میں استعمال ہوتو وہ مخصوص ہے اللہ جَلَّ شَانُہٗکے ساتھ؛ لیکن جب سردار اور اِس جیسے دوسرے معنیٰ میں مستعمَل ہوتو اِس کا نہ صرف نبیٔ کریم ﷺ پر؛ بلکہ ہربڑے پر استعمال کیاجاسکتاہے۔ اِس سے پہلے نمبر میں حضورﷺ کا ارشادغلاموں کے بارے میں گذرچکاہے کہ: وہ اپنے آقاکو ’’سیّدي ومولائي‘‘ کے لفظ سے پکارا کریں۔ مُلَّاعلی قاریؒ نے بہ روایتِ احمد حضرت رَباح سے نقل کیاہے کہ: ایک جماعت حضرت علیص کے پاس کوفہ میں آئی، اُنھوںنے آکر عرض کیا: اَلسَّلَامُ