فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
شریف میںحضورﷺ کا ارشادہے: ’’مَنْ تَرَكَ كَلاًّ أَوْ ضِیَاعاً فَأَنَا وَلِیُّہٗ‘‘ یہاں حضورِاقدس ﷺ نے اپنے آپ کو ولی بتایا ہے۔ ابھی بخاری شریف کی حدیث سے حضورِاقدس ﷺ کا پاک ارشاد ’’وَلْیَقُلْ سَیِّدِيْ وَمَوْلَايَ‘‘ گذر ہی چکاہے کہ، اپنے آقا کو سَیِّدِيْ وَمَوْلَائِي کہاکرے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد ’’مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ‘‘ مشہور ہے، قرآن پاک میں اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗکا ارشاد ہے: ﴿وَلِکُلِّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ﴾. اور حدیث وفقہ کی ’’کتاب النکاح‘‘ تو ’’کِتَابُ الأَوْلِیَاء‘‘ سے پُرہے، اور مشکوٰۃ شریف میں بہ روایتِ شیخین حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد حضرت زید بن حارثہص کے مُتعلِّق ’’أَنْتَ أَخُوْنَا وَمَوْلَانَا‘‘ وارد ہے۔ نیز بہ روایت مُسندِاحمد وترمذی حضرت زید بن اَرقم ص سے حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ‘‘ یعنی :جس کا مَیں مولیٰ ہوں، علی اُس کے مولاہیں۔ یہ حدیث مشہور(قال صاحب تحفۃالأحوذي لحدیث الترمذي: أخرجہ أحمد والنسائي والضیاء،وفي الباب عن بریدۃ،أخرجہ أحمد؛ وعن البراء بن عازب،أخرجہ أحمد وابن ماجہ؛ وعن سعد بن أبي وقاص، أخرجہ ابن ماجہ؛ وعن علي، أخرجہ أحمد۔ اھ وقال القاري بعد ذکر تخریجہ: والحاصل أن ہذا حدیث صحیح لا مریۃ فیہ؛ بل بعض الحفاظ عدہ متواترا؛ إذ في روایۃ لأحمد: أنہ سمعہ من النبيﷺ ثلاثون صحابي، وشہدوا بہ لعلي لما نوزع في خلافتہا. اھ)ہے،متعدِّد صحابۂ کرامث سے نقل کی گئی ہے۔ مُلاعلی قاریؒ اِس حدیث کی شرح میں ’’نہایہ‘‘سے لکھتے ہیںکہ: مولیٰ کا اِطلاق بہت سے معنیٰ پر آتاہے، جیسے: رب، اور مالک، اور سیّد، اور مُنعِم (یعنی احسان کرنے والا)، اور مُعتِق (یعنی غلام آزاد کرنے والا)، اور ناصِر (مددگار)، اور مُحب، اور تابع، اور پڑوسی، اور چچازاد بھائی، اورحَلیف وغیرہ وغیرہ بہت سے معنیٰ گِنوائے ہیں؛ اِس لیے ہر کے مناسب معنیٰ مُراد ہوںگے، جہاں ’’اَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَا لَکُمْ‘‘ وارد ہواہے وہاں رب کے معنیٰ میں ہے، اور حضورﷺ کے نام مبارک پر آیاہے، جیساکہ ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ‘‘، وہاں ناصر اور مددگار کے معنیٰ میںہے۔ مُلَّاعلی قاریؒ نے اِس حدیث کا شانِ وُرود یہ لکھاہے کہ: حضرت اُسامہ بن زیدص نے حضرت علی كَرَّمَ اللہُ وَجْهَہٗ سے یہ کہہ دیاتھاکہ: تم میرے مولیٰ نہیںہو، میرے مولیٰ حضورِاقدس ﷺ ہیں، اِس پر حضورﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ: مَیں جس کا مولیٰ ہوں علی اُس کے مولیٰ ہیں۔ علامہ سخاویؒ نے ’’قولِ بدیع‘‘ میں اور علامہ قَسطَلانیؒ نے ’’مواہبِ لَدُنِّیہ‘‘ میں حضورِاقدس ﷺ کے اسمائے مبارَکہ میںبھی لفظ مولیٰ کا شمار کرایاہے۔ علامہ زَرقانیؒ لکھتے ہیں: مولیٰ یعنی سیّد، منعم، مددگار، محب۔ اور یہ اللہتَعَالیٰ شَانُہٗکے ناموں میں سے ہے، اور عن قریب مصنِّف یعنی علامہ قسطلانیؒ کا اِستدلال اِس نام پر ’’أَنَا أَوْلیٰ بِکُلِّ مُؤْمِنٍ‘‘ سے آرہاہے۔ اِس کے بعد علامہ زرقانیؒ،