فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تھے: ’’أَبُوْبَکْرٍ سَیِّدُنَا،وَأَعْتَقَ سَیِّدَنَا یَعْنِيْ بِلَالًا‘‘: ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا۔ علامہ عینیؒ شرح بخاری میںلکھتے ہیں کہ: جب حضورِاقدس ﷺ نے انصار کو حضرت سعد ص کے بارے میں ’’قُوْمُوْا إِلیٰ سَیِّدِکُمْ‘‘: -یعنی اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ- کہا،تو اِس سے اِستدلال کیاجاتاہے اِس بات پر کہ، اگر کوئی شخص’’سیدي‘‘ اور’’مولائي‘‘ کہے تو اُس کو نہیں روکا جائے گا؛ اِس لیے کہ سِیادت کا مَرجع اور مآل اپنے ماتحتوں پر بَڑائی ہے اور اُن کے لیے حُسنِ تدبیر۔ اِسی لیے خاوند کو ’’سید‘‘ کہاجاتاہے، جب قرآن پاک میں ﴿وَأَلْفَیَا سَیِّدَہَا﴾ فرمایا۔ حضرت امام مالکؒ سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ: کیاکوئی شخص مدینۂ منوَّرہ میں اِس کو مکروہ سمجھتاہے کہ، اپنے سردار کو ’’یاسیدی‘‘ کہے؟ اُنھوںنے فرمایا: کوئی نہیں،الخ۔ امام بخاریؒ نے اِس کے جواز پر حضورﷺ کے ارشاد: ’’مَنْ سَیِّدُکُمْ‘‘ سے بھی استدلال کیاہے، جو ایک حدیث کا ٹکڑا ہے، جس کو خود امام بخاریؒ نے ’’ادبُ المفرد‘‘ میں ذکر کیاہے کہ، حضورِاقدس ﷺ نے بنوسلمہ سے پوچھا: ’’مَنْ سَیِّدُکُمْ؟‘‘ کہ: تمھارا سردار کون ہے؟ اُنھوںنے عرض کیا: جَد بن قیس، حضورﷺ نے فرمایا: ’’بَلْ سَیِّدُکُمْ عَمْرُو بْنِ جَمُوْحٍ‘‘: بلکہ تمھارا سردار عَمرو بن جَموح ہے۔ نیز ’’إِذَا نَصَحَ الْعَبْدُ سَیِّدُہٗ‘‘ مشہور حدیث ہے، جو متعدِّد صحابۂ کرام ث سے حدیث کی اکثر کتابوں: بخاری شریف وغیرہ میں مذکور ہے۔ نیز حضرت ابوہریرہص کی حدیث سے بخاری شریف میںحضورِاقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیاہے کہ: کوئی شخص ’’اَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّیْٔ رَبَّكَ‘‘ نہ کہے، یعنی: اپنے آقا کو ’’رب‘‘ کے لفظ سے تعبیر نہ کرے، ’’وَلْیَقُلْ سَیِّدِيْ وَمَوْلَايَ‘‘: بلکہ یوں کہے کہ: میرا سیّد اور میرا مولیٰ۔ یہ تو سیّد اور مولیٰ کہنے کا حکم صاف ہے۔ سوم: اِسی طرح سے نبیٔ کریم ﷺکے پاک نام پر ’’مولانا‘‘ کا لفظ بھی بعض لوگ پسند نہیں کرتے، ممانَعت کی کوئی دلیل باوجود تلاش کے اِس ناکارہ کو اب تک نہیں ملی؛ البتہ غزوۂ اُحُد کے قصے میں ابوسفیان کو جواب دیتے ہوئے نبیٔ کریم ﷺ کا یہ ارشاد ’’اَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ‘‘ وارد ہے، اور قرآن پاک میں سورۂ محمدمیں ﴿ذٰلِکَ بِأَنَّ اللہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَأَنَّ الْکَافِرِیْنَ لَا مَوْلیٰ لَہُمْ﴾ ہواہے؛ لیکن اِس سے غیرُ اللہ پر لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے اِطلاق کی ممانَعت معلوم نہیں ہوتی۔ یہاں بھی کمالِ ولایت مُراد ہے کہ، حقیقی مولا وہی پاک ذات ہے جیساکہ اللہجَلَّ شَانُہٗنے ارشاد فرمایا: ﴿مَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَانَصِیْرٍ﴾ کہ تمھارے لیے اللہ کے سِوا نہ کوئی ولی ہے نہ کوئی مددگار۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَاللہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾. اور بخاری