فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
لکھاہے کہ: جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’بہت سے لوگ ’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ‘‘ کہتے ہیں، اور اِس میں بحث ہے۔ وہ یوں کہتے ہیںکہ: نماز میں تو ظاہر ہے کہ نہ کہنا چاہیے، نماز کے عِلاوہ میں حضورِاقدس ﷺ نے اُس شخص پر انکار کیاتھا جس نے آپ ﷺ کو سیّدنا سے خطاب کیاتھا، جیساکہ حدیث مشہور میںہے، (وہی حدیث ابوداؤد جو اوپر گذری)؛ لیکن حضورﷺ کا انکار احتمال رکھتاہے کہ تواضع ہو، یامنھ پر تعریف کرنے کو پسند نہ کیاہو، یا اِس وجہ سے کہ یہ زمانۂ جاہِلیَّت کا دستور تھا، یا اِس وجہ سے کہ اُنھوں نے مُبالَغہ بہت کیا، چناںچہ اُنھوںنے کہاتھا کہ: آپ ہمارے سردار ہیں، آپ ہمارے باپ ہیں، آپ ہم سے فضیلت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں، آپ ہم پر بخشش کرنے میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں، اور آپ ’’جفنۃ الغراء‘‘ ہیں۔یہ بھی زمانۂ جاہلیت کا ایک مشہور مَقُولہ ہے کہ، وہ اپنے سردار کو جو بڑا کہلانے والا ہو اور بڑے بڑے پیالوں میں لوگوں کو دُنبوں کی چِکتی اور گھی سے لبریز پیالوں میں کھلاتاہو۔ اور آپ ایسے ہیں اور آپ ایسے ہیں، تو اِن سب باتوں کے مجموعے پر حضورﷺ نے انکار فرمایاتھا، اور فرمایاتھا کہ: شیطان تم کو مبالغے میں نہ ڈال دے۔ حالاںکہ صحیح حدیث میں حضورِاقدس ﷺ کا یہ ارشاد ثابت ہے: ’’أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ‘‘ کہ: مَیں اولادِ آدم کاسردار ہوں۔ نیز حضورﷺ کا قول ثابت ہے اپنے نواسے حسن ص کے لیے: ’’اِبْنِيْ ہٰذَا سَیِّدٌ‘‘: میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ اِسی طرح سے حضورِاقدس ﷺ کا حضرت سعدص کے بارے میں اُن کی قوم کو یہ کہنا: ’’قُوْمُوْا إِلیٰ سَیِّدِکُمْ‘‘ کہ: کھڑے ہوجاؤ اپنے سردار کے لیے۔ اور امام نَسائی کی کتاب ’’عَمَلُ الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ‘‘ میں حضرت سَہل بن حُنیف ص کا حضورِاقدس ﷺ کو ’’یَا سَیِّدِي‘‘ کے ساتھ خطاب کرنا وارد ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودص کے درود میں ’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘ کا لفظ وارد ہے۔ اِن سب اُمور میں دلالتِ واضحہ ہے اور روشن دلائل ہیں اِس لفظ کے جواز میں، اور جو اِس کا انکار کرے وہ محتاج ہے اِس بات کا کہ، کوئی دلیل قائم کرے عِلاوہ اُس حدیث کے جو اوپر گذری؛ اِس لیے کہ اُس میں احتمالاتِ مذکورہ ہونے کی وجہ سے اُس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ إِلیٰ اٰخِرِ مَاذَكَرَہٗ. یہ توظاہرہے -جیساکہ اوپر بھی ذکر کیاگیا- کہ کمالِ سِیادت اللہ ہی کے لیے ہے؛ لیکن کوئی دلیل ایسی نہیں جس کی وجہ سے اِس کا اِطلاق غیرُاللہ پر ناجائز معلوم ہوتاہو۔ قرآن پاک میں حضرت یحییٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے بارے میں ﴿سَیِّدًا وَّحُصُوْرًا﴾ کا لفظ وارد ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عمرص کا ارشاد منقول ہے، وہ فرمایا کرتے