فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کے شروع میں ۱؍ پر لکھاگیاہے، یہ بخاری شریف کی روایت ہے جو سب سے زیادہ صحیح ہے، اور حنفیہ کے نزدیک نماز میں اِسی کا پڑھنا اَولیٰ ہے، جیساکہ علامہ شامیؒ نے لکھاہے کہ: حضرت امام محمدؒ سے سوال کیا گیا کہ: حضورﷺ پر درود کن الفاظ سے پڑھے؟ تو اُنھوں نے یہی درود شریف ارشاد فرمایا جو فصل کے شروع میں لکھاگیاہے، اور یہ درود موافق ہے اُس کے جو صحیحین (بخاری ومسلم) وغیرہ میںہے۔ علامہ شامیؒ نے یہ عبارت ’’شرح مُنیہ‘‘ سے نقل کی ہے۔ شرح مُنیہ کی عبارت یہ ہے کہ: یہ درود موافق ہے اُس کے جو صحیحین میں کَعب بن عُجرہ ص سے نقل کیا گیا ہے۔ انتہیٰ، اور کعب بن عجرہص کی یہی روایت ہے جو اوپر گذری۔ اِمتثالِ اَمر: حکم کو پورا کرنا۔ صَفی: منتخب۔ مکرَّم: عزت والا۔ آباء واَجداد: باپ دادا۔ ممدوح: تعریف کے قابل۔ علامہ سخاویؒ کہتے ہیں کہ: حضرت کعب صوغیرہ کی حدیث سے اُن الفاظ کی تعیین ہوتی ہے جو حضورﷺ نے اپنے صحابہث کو آیتِ شریفہ کے اِمتثالِ اَمر میں سکھلائے۔ اَور بھی بہت سے اکابر سے اِس کا افضل ہونا نقل کیاگیا ہے۔ ایک جگہ علامہ سخاویؒ لکھتے ہیں کہ: حضورِاقدس ﷺ نے صحابہث کے اِس سوال پر کہ: ہم لوگوں کو اللہجَلَّ شَانُہٗصلاَۃ وسلام کا حکم دیا ہے تو کونسا درود پڑھیں؟ تو حضورﷺ نے یہ تعلیم فرمایا۔ اِس سے معلوم ہواکہ یہ سب سے افضل ہے۔ امام نوویؒ نے اپنی کتاب ’’رَوضہ‘‘ میں تو یہاں تک لکھ دیاہے کہ: اگر کوئی شخص یہ قَسم کھا بیٹھے کہ: مَیں سب سے افضل درود پڑھوںگا، تو اِس درود پڑھنے سے قَسم پوری ہوجائے گی۔ ’’حِصنِ حَصِین‘‘ کے حاشیہ پر ’’حِرزِثَمین‘‘ سے نقل کیاہے کہ: یہ درود شریف سب سے زیادہ صحیح ہے اور سب سے زیادہ افضل ہے، نماز میں اور بغیر نماز میں اِسی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ یہاں ایک بات قابل تنبیہ یہ ہے کہ: ’’زاد السعید‘‘ کے بعض نسخوں میں کاتب کی غلطی سے ’’حرز ثمین‘‘ کی یہ عبارت بہ جائے اِس درود شریف کے ایک دوسرے درود کے نمبر پر لکھ دی گئی، اِس کا لحاظ رہے۔ اِس کے بعد اِس حدیث شریف میں چند فوائد قابل ذکر ہے: اوَّل یہ کہ، صحابۂ کرام ث کا یہ عرض کرنا کہ: سلام ہم جان چکے ہیں، اِس سے مراد التحیات کے اندر اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ أَیُّھَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗہے۔ علامہ سخاویؒ کہتے ہیںکہ: ہمارے شیخ یعنی حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک یہی مطلب زیادہ ظاہر ہے۔ ’’اَوجَز‘‘ میں امام بیہقی سے بھی یہی نقل کیا گیاہے، اور اِس میں بھی متعدِّد عُلَما سے یہی مطلب نقل کیاگیاہے۔ (۲) ایک مشہور سوال کیاجاتاہے کہ: جب کسی چیز کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے، مثلاً: یوں کہاجائے کہ: فلاں شخص حاتم طائی جیسا سخی ہے، تو