فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فرمانے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قُصور کو مُعاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوںسے دریافت فرماتے ہیں: کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗارشاد فرماتے ہیں کہ: اے فرشتو! مَیں تمھیں گواہ بناتا ہوں، مَیں نے اُن کو رمَضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رَضا اور مغفرت عطا کر دی، اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے کہ: اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزَّت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! آج کے دن اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروںگا، اور دنیاکے بارے میں جو سوال کروگے اُس میں تمھاری مَصلَحت پرنظر کروںگا، میری عزَّت کی قَسم! جب تک تم میرا خَیال رکھوگے مَیں تمھاری لغزشوں پر سَتَّاری کرتا رہوںگا (اور اُن کو چھپاتا رہوںگا)، میری عزَّت کی قَسم اور میرے جَلال کی قَسم! مَیں تمھیں مُجرِموں (اور کافروں) کے سامنے رُسوا اور فَضِیحت نہ کروںگا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کولوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور مَیں تم سے راضی ہوگیا؛ پس فرشتے اُس اَجروثواب کو دیکھ کر جو اِس اُمَّت کو اِفطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مَناتے ہیں اور کھِل جاتے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ. آراستہ:مُزیَّن۔ کِواڑوں: دروازے۔ دِل آویز: دل کو لُبھانے والی۔ خوش نُما: خوب صورت۔ بَالاخانوں: اوپر کے مکان۔ دَاروغہ: نگران۔ نادار: فقیر۔ خَلاصِی:چھُٹکارا۔ مَرحَمَت: عطا۔ سَبز: ہرا۔ قَطع رَحمی:رشتہ توڑنا۔ ناتا: رشتے داری۔ سِروں: کنارہ۔ رَضا: خوشی۔ مُستثنیٰ:الگ۔ زَک: ہار، شکست۔ تَلافی: کمی کو پورا کرنا۔ پیشی: حضوری۔ مَتاع: سامان۔ کار آمد: کام آنے والا۔ اَنبار: ڈھیر۔ رَسِید: پہنچنے والا۔ یاس: نااُمیدی۔ سُوئے:طرف۔ رائیگاں: بے کار۔ فائدہ:اِس حدیث کے اَکثر مَضامِین رِسالے کے گذِشتہ اَورَاق میں بیان ہوچکے ہیں، البتَّہ چند اُمور قابلِ غور ہیں، جن میں سب سے اوَّل اور اہم تو یہ ہے کہ: بہت سے محروم رمَضان کی مغفرتِ عامَّہ سے بھی مُستثنیٰ تھے- جیسا کہ پہلی روایات میں معلوم ہوچکا ہے- اور وہ عید کی اِس مغفرتِ عامَّہ سے بھی مُستثنیٰ کردیے گئے، جن میں سے آپس کے لڑنے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے بھی ہیں، اُن سے کوئی پوچھے کہ: تم نے اللہ کو ناراض کرکے اپنے لیے کونسا ٹھکانہ ڈھونڈ رکھا ہے؟ افسوس تم پر بھی اور تمھاری اُس عزت پر بھی جس کے حاصل کرنے کے غلط خَیال میں تم رسولُ اللہ ﷺ کی بددُعائیں برداشت کررہے ہو، جبرئیل ں کی بددعائیں اُٹھا رہے ہو، اور اللہ کی رحمت ومغفرتِ عامّہ سے بھی نکالے جارہے ہو، مَیں پوچھتا ہوںکہ: آج تم نے اپنے مُقابِل کو زَک دے ہی دی، اپنی مونچھ اُونچی کرہی لی، وہ کتنے دن تمھارے ساتھ رہ سکتی ہے؟ جب کہ اللہ کا پیارا رسول تمھارے اوپر لعنت کررہا ہے، اللہ کا مُقرّب فرشتہ تمھاری ہلاکت کی بد دُعا دے رہا ہے، اللہ جَلَّ شَانُہٗ تمھیں اپنی مغفرت ورحمت سے نکال رہے ہیں۔ اللہ کے واسطے سوچو اور بس کرو، صبح کا بھٹکا شام کوگھر آجائے توکچھ نہیں گیا، آج وقت ہے اور تَلافی ممکن، اور کل جب ایسے حاکم کی پیشی میں جانا ہے جہاں نہ عزت ووَجاہت کی پوچھ نہ مال ومَتاع کار آمد ، وہاں صرف تمھارے اعمال کی پوچھ ہے، اور ہر حرکت لکھی لکھائی سامنے