فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
رات کسی تاریخ کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ مختلف سالوں میں مختلف راتوں میں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے روایات مختلف ہیں، کہ ہر سال نبیٔ کریم ﷺ نے اُس سال کے مُتعلِّق مختلف راتوں میں تلاش کا حکم فرمایا، اور بعض سالوں میں متعیَّن طور سے بھی ارشاد فرمایا، چناںچہ ابوہریرہ صکی روایت میں ہے کہ: حضورﷺ کی مجلس میں ایک مرتبہ شبِ قدر کا ذکر آیا توآپ ﷺ نے فرمایا کہ: آج کونسی تاریخ ہے؟ عرض کیاگیا کہ: ۲۳؍ ہے، حضورﷺنے فرمایا کہ: آج ہی کی رات میں تلاش کرو۔ حضرت ابوذَرصکہتے ہیں کہ: مَیں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ: شبِ قدر نبی کے زمانے کے ساتھ خاص رہتی ہے یا بعد میں بھی ہوتی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ: قِیامت تک رہے گی، مَیں نے عرض کیا کہ: رمَضان کے کس حصے میں ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: عشرۂ اول اور عشرۂ آخر میں تلاش کرو، پھر حضورﷺ اَور باتوں میں مشغول ہوگئے، مَیںنے موقع پاکر عرض کیا: اجی! یہ تو بتلاہی دیجیے کہ عشرے کے کونسے حصَّے میں ہوتی ہے؟ حضورﷺاِتنے ناراض ہوئے کہ نہ اِس سے قَبل مجھ پر اِتنے خَفا ہوئے تھے نہ بعد میں، اور فرمایا کہ: اگر اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ کایہ مقصود ہوتا تو بتلانہ دیتے، آخر کی سات رات میںتلاش کرو، پس اِس کے بعد اَور کچھ نہ پوچھیو۔ ایک صحابی کو حضورﷺ نے ۲۳؍کی شب متعیَّن طور پر ارشاد فرمائی، ابن عباس صکہتے ہیں کہ: مَیں سورہا تھا، مجھے خواب میں کسی نے کہا کہ: اُٹھ! آج شبِ قدر ہے، مَیں جلدی سے اُٹھ کر نبیٔ کریم ﷺ کی خدمت میں گیا، تو آپ کی نماز کی نیت بندھ رہی تھی، اور یہ رات ۲۳؍ کی شب تھی۔ بعض روایات میں متعیَّن طور سے ۲۴؍ کی شب کا ہونا بھی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودصکا ارشاد ہے کہ: جو شخص تمام سال رات کو جاگے وہ شبِ قدر کو پاسکتا ہے، (یعنی: شبِ قدر تمام سال میں دَائِر رہتی ہے۔)کسی نے ابنِ کَعب ص سے اِس کونقل فرمایا، تو وہ فرمانے لگے کہ: ابن مسعود کی غرض یہ ہے کہ لوگ ایک رات پر قَناعت کرکے نہ بیٹھ جائیں، پھر قَسم کھاکر یہ بتلایا کہ وہ ۲۷؍ رمَضان کو ہوتی ہے۔ اوراِسی طرح سے بہت سے صحابہ ث اور تابعین کی رائے ہے کہ: وہ ۲۷؍ کی شب میں ہوتی ہے۔ اُبَی بن کَعب ص کی تحقیق یہی ہے؛ ورنہ ابن مسعودص کی تحقیق وہی ہے کہ جو شخص تمام سال جاگے وہ اِس کو معلوم کرسکتا ہے۔ اور ’’دُرِّمَنثور‘‘ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ: وہ نبیٔ کریم ﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں۔ اَئمہ میں سے بھی امام ابوحنیفہؒ کامشہور قول یہ ہے کہ: تمام سال میں دائر رہتی ہے۔ دوسرا قول امام صاحب کا یہ ہے کہ: تمام رمَضان میں دائر رہتی ہے۔ صاحبین کا قول ہے کہ: تمام رمَضان کی کسی