فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ایک رات میں ہے جومتعیَّن ہے؛ مگر معلوم نہیں۔ شافِعِیَّہ کا رَاجِح قول یہ ہے کہ: ۲۱؍ کی شب میں ہونا اَقرب ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا قول یہ ہے کہ: رمَضان کے آخر عشرے کی طاق راتوں میں دائر رہتی ہے، کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی دوسری رات میں۔ جَمہُور عُلَما کی رائے یہ ہے کہ: ستائیسویں رات میں زیادہ اُمید ہے۔ شیخُ الْعَارِفِین مُحیُ الدِّین ابنِ عربی کہتے ہیں کہ: میرے نزدیک اُن لوگوں کا قول زیادہ صحیح ہے جو کہتے ہیںکہ: تمام سال میں دائر رہتی ہے؛ اِس لیے کہ مَیں نے دومرتبہ اِس کو شعبان میں دیکھا ہے: ایک مرتبہ پندرہ کو اور ایک مرتبہ ۱۹؍ کو، اور دومرتبہ رمَضان کے درمیان عشرے میں: ۱۳؍ کو اور ۱۸؍ کو، اور رمَضان کے اخیر عشرے کی ہر طاق رات میں دیکھا ہے؛ اِس لیے مجھے اِس کا یقین ہے کہ وہ سال کی راتوں میں پھرتی رہتی ہے؛ لیکن رمَضانُ المبارک میں بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ ہمارے حضرت شاہ وَلیُ اللہ صاحبؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ: شبِ قدر سال میں دومرتبہ ہوتی ہے: ایک وہ رات ہے جس میں احکامِ خداوَندی نازل ہوتے ہیں، اور اِسی رات میں قرآن شریف لوحِ محفوظ سے اُترا ہے، یہ رات رمَضان کے ساتھ مخصوص نہیں، تمام سال میں دَائر رہتی ہے؛ لیکن جس سال قرآن پاک نازل ہوا اُس سال رمَضانُ المبارک میں تھی، اور اکثر رمَضانُ المبارک ہی میں ہوتی ہے۔ اور دوسری شبِ قدر وہ ہے جس میں رُوحانِیت کا ایک خاص اِنتِشار ہوتا ہے اور ملائکہ بہ کثرت زمین پر اُترتے ہیں، اور شیاطِین دُور رہتے ہیں، دُعائیں اور عبادتیں قَبول ہوتی ہیں، یہ ہر رمَضان میں ہوتی ہے، اور اخیر عشرے کی وِتر راتوں میں ہوتی ہے اور بدلتی رہتی ہے۔ میرے والد صاحب -نَوَّرَ اللہُ مَرَقَدَہٗ وَبَرَّدَمَضْجَعَہٗ- اِسی قول کو راجح فرماتے تھے۔ بہرحال شبِ قدر ایک ہو یا دو، ہر شخص کو اپنی ہِمَّت ووُسعَت کے موافق تمام سال اِس کی تلاش میں سَعِی کرناچاہیے، نہ ہوسکے تو رمَضان بھر جُستجو کرنا چاہیے، اگر یہ بھی مشکل ہو تو عشرۂ اخیرہ کوغنیمت سمجھنا چاہیے، اِتنا بھی نہ ہوسکے تو عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں کوہاتھ سے نہ دینا چاہیے، اور اگر خدانہ خواستہ یہ بھی نہ ہوسکے تو ستائیسویں شب کو تو بہر حال غنیمتِ بارِدہ سمجھنا ہی چاہیے، کہ اگر تائیدِ اَیزدی شاملِ حال ہے اورکسی خوش نصیب کو مُیسَّر ہوجائے، تو پھر تمام دنیا کی نعمتیں اور راحتیں اِس کے مقابلے میں ہَیچ ہیں؛ لیکن اگر مُیسَّر نہ بھی ہوتب بھی اَجر سے خالی نہیں، بِالخُصوص مغرب وعشاء کی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرنے کا اہتمام تو ہر شخص کو تمام سال بہت ہی ضرور ہونا چاہیے، کہ اگر خوش قِسمتی سے شبِ قدر کی رات میںیہ دو نمازیں جماعت سے مُیسَّر ہوجائیں توکس قدر باجماعت نمازوں کا ثواب ملے!۔ اللہ کا کس قدر بڑا انعام ہے کہ، کسی دِینی کام میں کوشش کی جائے تو کامیابی نہ ہونے کی صورت میں بھی اُس کوشش کا اَجر ضرور ملتا ہے؛ لیکن اِس کے باوجود کتنے ہِمَّت والے ہیں جو دِین کے دَرپے ہیں، دِین کے لیے مرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں؛