فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
رہے، بڑا نفع تو یہی ہے جو معلوم ہوچکا، یعنی شہوتوں کا توڑنا، یہ بھی اِسی پر مَوقُوف ہے کہ کچھ وقت بھوک کی حالت میں گزرے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’شیطان آدمی کے بدن میں خون کی طرح چلتا ہے، اُس کے راستوں کو بھوک سے بندکرو‘‘۔ تمام اَعضا کا سَیر ہونا نفس کے بھوکا رہنے پر مَوقُوف ہے، جب نفس بھوکا رہتا ہے تو تمام اَعضا سَیر رہتے ہیں، اور جب نفس سَیر ہوتا ہے تو تمام اَعضا بھوکے رہتے ہیں۔ تَشبُّہ: مُشابَہت۔ بے تابی: بے چینی۔ عامَّۃً: عام طور سے۔ تَصرِیح:وَضاحت۔ مُتنعِّم: مال دار۔ تَلخی: کڑواہٹ۔ فِنجان: چھوٹی پیالیاں۔ لَجاجَت: عاجزی،مَنَّت سَماجَت۔ ضُعف: کمزوری۔ سِیَاہ کاروں: گنہ گار۔ زَہے نصیب: خوش قسمتی۔ ندارَند تَن پَروَراں آگَہی ء کہ پُر مِعدہ باشد زَحِکمَت تَہِی: پیٹ کو پُوجنے والے عقل نہیں رکھتے؛ اِس لیے کہ پیٹ بھرا دانائی سے خالی ہوتا ہے۔ دوسری غرض روزے سے فُقَراکے ساتھ تَشبُّہ اور اُن کے حال پر نظر ہے، وہ بھی جب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب سَحرمیں مِعدے کو دودھ جَلَیبی سے اِتنا نہ بھرے کہ شام تک بھوک ہی نہ لگے، فُقرا کے ساتھ مُشابَہت جب ہی ہوسکتی ہے جب کچھ وقت بھوک کی بے تابی کا بھی گزرے۔ بِشَرحافیؒ کے پاس ایک شخص گئے، وہ سردی میں کانپ رہے تھے اور کپڑے پاس رکھے ہوئے تھے، اُنھوں نے پوچھا کہ: یہ وقت کپڑے نکالنے کاہے؟ فرمایا کہ: فُقَرا بہت ہیں، اور مجھ میں اُن کی ہَمدَردِی کی طاقت نہیں، اِتنی ہمدردی کرلُوں کہ مَیں بھی اُن جیسا ہوجاؤں۔ مَشائخِ صُوفیاؒ نے عامَّۃً اِس پرتنبیہ فرمائی ہے اور فُقَہا نے بھی اِس کی تَصرِیح کی ہے، صاحب ’’مَرَاقِیُ الفَلَاحْ‘‘لکھتے ہیں کہ: سُحور میں زیادتی نہ کرے جیسا کہ مُتنعِّم لوگوں کی عادت ہے، کہ یہ غرض کو فوت کردیتاہے۔ علاَّمہ طَحطَاوِیؒ اِس کی شرح میںتحریر فرماتے ہیں کہ: غرض کامقصود یہ ہے کہ بھوک کی تَلخی کچھ محسوس ہو؛ تاکہ زیادتیِٔ ثواب کا سبب ہو، اور مَساکِین وفُقَرا پر ترس آسکے۔ خود نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ کو کسی برتن کابھرنا اِس قدر ناپسند نہیں ہے جتنا کہ پیٹ کا پُر ہونا ناپسند ہے۔ ایک جگہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمر سیدھی رہے، اگر کوئی شخص بالکل کھانے پر تُل جائے تو اِس سے زیادہ نہیں کہ، ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، اور ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی خالی۔ آخر کوئی تو بات تھی کہ نبیٔ کریم ﷺ کئی کئی روز تک مُسلسَل لگاتار روزہ رکھتے تھے، کہ درمیان میں کچھ بھی نوش نہیں فرماتے تھے۔ مَیں نے اپنے آقا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کو پورے رمَضانُ المبارک میں دیکھا ہے کہ، افطار وسحر دونوں وقت کی مقدار تقریباً ڈیڑھ چَپاتی سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، کوئی خادِم عَرض بھی کرتا تو فرماتے کہ: بھوک نہیں ہوتی، دوستوں کے خَیال سے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔ اور اِس سے بڑھ کر حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب