فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تصدیق کے سِوا آگے بڑھنے کی جُرأت نہیں کرتے، تو پھر عوام کو چُون وچِرا کا کیا حق ہے؟۔ تیسرے یہ کہ عُلَما کی حق تَلفی کی جائے اور اُن کے ساتھ لاپرواہی کا مُعاملہ کیا جائے۔ ’’ترغیب‘‘ میں اِس حدیث کو بروایتِ ’’طَبرانی‘‘ ذکر کیا ہے، اور اِس قِسم کی روایات بہ کثرت حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جس قِسم کے الفاظ اِس زمانے میں عُلَما اور علومِ دینیہ کے مُتعلِّق اکثر استعمال کیے جاتے ہیں، ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں اُن میں سے اکثر الفاظ کو الفاظِ کُفرِیہ میں شمار کیا ہے؛ مگر لوگ اپنی ناواقِفِیَّت سے اِس حکم سے غافل ہیں؛ اِس لیے نہایت ضروری ہے کہ اِس قِسم کے اَلفاظ بِالعُموم استعمال کرنے میں بہت زیادہ اِحتیاط کی جائے۔ بِالفَرض اگر مان بھی لیا جاوے کہ، عُلَمائے حَقَّانی کا اِس وقت وُجُود ہی نہیںرہا، اور یہ سب جماعتیں جن پر عُلَما کا اِطلاق کیا جاتا ہے عُلَمائے سُوء ہی ہیں، تب بھی آپ حضرات کی صِرف اِن عُلَما کو ’’عُلَمائے سُوء‘‘ کہنے سے سُبک دَوشی نہیں ہوسکتی؛ بلکہ ایسی حالت میں تمام دنیا پر یہ فرض عائِد ہوجاتا ہے کہ عُلَمائے حَقَّانی کی ایک جماعت پیدا کی جائے، اُن کو علم سِکھایا جائے؛ اِس لیے کہ عُلَماکا وُجود فرضِ کِفایہ ہے، اگر ایک جماعت اِس کے لیے موجود ہے تو یہ فرض سب سے ساقط ہے؛ ورنہ تمام دنیا گنہ گار ہے۔ ایک عام اشکال یہ کیاجاتا ہے کہ: اِن عُلَما کے اِختلاف نے عوام کو تباہ وبرباد کردیا ہے، ممکن ہے کہ کسی درجے میں صحیح ہو؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ عُلَما کا اختلاف آج کا نہیں، سو پچاس برس کا نہیں، خَیرُ القُرون؛ بلکہ خود نبیٔ اکرم ﷺکے زمانے سے ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ حضرت ابوہریرہ ص کو اپنے نَعلَین شریف بہ طورِ علامت کے دے کر اِس اعلان کے لیے بھیجتے ہیں کہ: جو شخص کلمہ گو ہو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، راستے میں حضرت عمرصملتے ہیں اور مُعاملہ پوچھتے ہیں، حضرت ابوہریرہ صاپنے آپ کو حضورﷺ کا قاصِد بتاتے ہیں؛ لیکن پھر بھی حضرت عمرصاِس زور سے اُن کے سینے پر دونوں ہاتھ مارتے ہیں کہ وہ بیچارے سُرِینوں کے بَل زمین پر گِرپڑتے ہیں؛ مگر نہ کوئی حضرت عمرصکے خلاف پوسٹر شائع ہوتا ہے، نہ کوئی جلسہ ہوکر اِحتجاجی رِیزُولِیُوشَن پاس ہوتا ہے۔ حضراتِ صحابۂ کرام ثمیں ہزاروں مسئلے مُختلَف فیہا ہیں، اور اَئِمَّۂ اربعہؒ کے یہاں تو شاید فِقہ کی کوئی جُزئی ہو جو مُختلَف فِیہ نہ ہو، چار رکعت نماز میں نِیَّت باندھنے سے سلام پھیرنے تک تقریباً دوسو مسئلے ائمۂ اَربعہ کے یہاں ایسے مُختلَف فِیہ ہیں جو مجھ کوتاہ نظر کی نگاہ سے بھی گزر چکے ہیں، اور اِس سے زائد نہ معلوم کتنے ہوںگے؟؛ مگر کبھی رَفعِ یَدین اور آمین بِالجہَر وغیرہ دوتین مسئلوں کے سِوا کانوں میں نہ پڑے ہوںگے، نہ اُن کے لیے اِشتِہارات وپوسٹر شائع ہوئے ہوںگے، نہ جلسے اور مُناظَرے ہوتے دیکھے ہوںگے، راز یہ